الحمدللہ پورے ملک کو معلوم ہوگیا ہے کہ بابری مسجد کے بارے میں میرا موقف کیا ہے، اور ملک کے لئے میرا مشن کیا ہے، میں تمام اخبارات اور ٹی وی چینلزکا شکر گذار ہوں کہ انہوں نے پورا تعاون کرتے ہوئے میری بات لوگوں تک پہنچا دی ۔
میری بات یہ ہے کہ ملک میں ہندو،مسلم ،بودھ،سکھ،عیسائی کے درمیان بھائی چارہ ہونا چایئے، مذاہب کے لوگوں اور مختلف برادریوں کو یہ بات ماننا چایئے کہ سب ایک رب کے بندے اور ایک باپ کے بیٹے ہیں، انہیں اپنے مسائل گھر یلوطرز پر گھر کے اندر ہی طے کرلینا چاہیے، بھائیوں کا عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے درمیان دوری، نفرت اور عداوت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ وہ آپس میں مصالحت نہیں کرسکتے ، اس ملک میں ہندووں اور مسلمانوں میں یہ کھائی اور نفرت کی دیوار انگریزوں نے پیدا کی تھی، جدوجہد آزادی نے اس پر قابو پایا تھا، لیکن تحریک آزادی کا اختتام جس تقسیم پر ہوا، اس نے انگریزوں کی شیطنت اور عیاری کو ملک کے باشندوں پر غالب کردیا۔
آزادی کے بعد سے آج تک اس ملک میں انگریزوں کے ایجنٹ اور نفرت کے پرچارک فسادات کراتے رہے،اور خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتے رہے جس میں سب سے بڑا ہاتھ کانگریس کا ہے ۔
بابری مسجد کے قضیہ میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کی ۱۹۹۰ء ۱۹۹۱ءکی کوششوں کو فریقین کے شرپسندوں نے ناکام بنادیا، جس کے بعد مسجد شہید کردی گئی اور پورے ملک میں بے دردی سے خون مسلم بہایا گیا،اب پھر حالات گرماگرم ہیں، ہم لوگوں نے ۵-۶ مہینوں سے ایک مصالحتی فارمولہ پر اپنی کوششیں صرف کیں، جو جاری رہیں گی، عدالت سے باہر ہی مسائل کو حل ہونا چاہیے، یہی شریفانہ طریقہ ہے، اور یہی داعیانہ طرزواسلوب ہے۔
مسلم پرسنل لابورڈ اور جمعیت العلما کی یہ رائے ہے کہ ہم عدالت کے فیصلہ کا ہی انتظار کریں گے، میرا ان سے اختلاف ہے،میں نے حیدرآباد میں مسلم پرسنل لابورڈ کی مجلس عاملہ میں اپنے اختلاف کا تذکرہ کیا،جس پر جو ردعمل ہوا سب کو معلوم ہے۔
مجھ سے کہا گیا کہ میں اپنا موقف تبدیل کرلوں، میں نے صاف طور پر اس سے انکار کیا، مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم کے بیانات سے معلوم ہوا کہ ان کو بیچ میں ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ وہ مجھے رجوع پر آمادہ کریں،تاکہ میں پرسنل لا بورڈ میں واپس آسکوں۔
میں مولانا ارشد مدنی سے عرض کرتا ہوں کہ آپ جانتے ہیں کہ جب آپ کے بھتیجے نے آپ سے اختلاف کیا تھا تو میں نے آپ کے حق میں اپنے موقف کا اعلان کیا تھا،اس لئے کہ آپ مولانا محمود مدنی کے چچا ہیں ،باپ کی جگہ پر ہیں،علم وتقوی میں فضیلت رکھتے ہیں،جس کے بعد آپ نے اپنے جلسوں میں مجھے بلانا شروع کیا،آپ کی جرأت اور صداقت اور سرگرمی کی بنیاد پر میرا یہ مطالبہ تھا کہ آپ امیر الھند قرار دیئے جائیں۔
لیکن جب سعودی حکومت کے مظالم اور جرائم کی کھلم کھلا کہانی شروع ہوئی، تو میں نے آپ کو سوال نامہ بھیجا کہ اپنے موقف کی وضاحت کریں، اس حکومت کی نسبت سے علحدگی اختیار کریں، جس نے ایک عرصہ سے مسالکِ صوفیا،اشاعرہ وماتریدیہ، اور دینی جماعتوں کو نشانہ بنایا، مولانا قاسم نانوتوی کو اپنی جامعات کے تخصص کے بعض مقالات میں قادیانیت کا بانی قرار دیا، دیوبندیت کو قادیانیت کی طرح ایک فرقہ قرار دیا ، اور اس پر کتابیں شائع کرائیں، دوسری طرف ہر ملک کی اسلامی تحریکات کا قلع قمع کیا، مصر میں مرسی صاحب کی جمہوری اسلامی حکومت کو ختم کرانے کے لئے وزیر دفاع کو اسرائیل کے توسط سے تیار کیا، اور فوجی انقلاب برپا کرکے ہزاروں بے گناہوں کا سڑکوں پر قتل عام کرایا، مجھے تعجب تھا اور ہے کہ مولانا کی جرأت حق گوئی کہاں گئی اور اب سعودی عرب لادینی (سیکولر) ملک بنایا جارہا ہے،عورتوں کا پردہ ختم کیا جارہا ہے، کھلے عام ڈانس کی محفلیں سجائی جارہی ہیں، سینما گھر کھولے جارہے ہیں،نامی گرامی علماء کو گرفتار کیا جارہا ہے، تو آخر کیابات ہے کہ جو علماء طلاق کے لئے پریشان ہیں کہ کہیں یہ حق ان سے چھین نہ لیا جائے،وہ سعودی حکومت کی ظالمانہ کارروائیوں پر کیوں نہیں بولتے؟؟؟!!!۔
میرے ان سوالات کے بعد جمعیت العلماء کے اسٹیج پر مجھے بلانا بند کردیا گیا،اس سے پہلے جنرل سکریٹری کی طرف سے جمعیت کی بعض ذمہ داریاں قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی،لیکن میں نے اس خط کا جواب بھی نہیں دیا تھا،اور نہ مجھے جمعیت العلماء کے کسی عہدہ، اور نہ اس کے اسٹیج کی ضرورت ہے۔
اب بڑی شفقت سے مولانا فرمارہے ہیں اوربہت سے محبین کہہ رہے ہیں کہ آپ اپنا موقف تبدیل کرلیں، تو آپ کو پرسنل لابورڈ میں لے لیا جائے گا،میں ان پر ہنستاہوں اور روتا ہوں، مجھے تعجب ہوتا ہے کہ کیا بڑے اصحاب علم بھی بات نہیں سمجھ پائے۔
میں نے اپنے موقف کی وجہ سے مسلم پرسنل لابورڈ سے علیحدگی اختیار کی ہے، جوحضرات بغلیں بجارہے ہیں کہ ہم نے ان کو نکال دیا،وہ خوش ہولیں ، مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔
۱-مجھے ان سے ہرقضیہ میں عدالت کا دروزاہ کھٹکھٹانے،اور ملت کی بڑی رقومات وکیلوں پر خرچ کرنے کی پالیسی سے پرانا اختلاف ہے۔
۲-مجھے تین طلاقوں کے قضیہ میں پہلے دن سے ان سے اختلاف ہے۔
۳-مجھے بابری مسجد کے مسئلہ میں ان کی پالیسی سے اختلاف ہے۔
۴-مجھے ان کی موجودہ انتظامیہ سے اختلاف ہے۔
اس لئے جولوگ بابری مسجد کے مسئلہ میں میرے خلاف جھوٹے پروپیگنڈہ کا استعمال کررہے ہیں کہ مولانا سلمان مسجد کی زمین مندر کودے رہے ہیں،کورٹ کے فیصلہ سے پہلے یہ بیچ میں کیوں کودپڑے، یہ روی شنکر سے کیوں ملے،سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمارے حق میں آنے والا ہے،بڑے چھوٹے،عوام وخواص کی ایک تعداد اس کا شور مچائے ہوئے ہے۔
اس لئے میں اب یہ اعلان کررہا ہوں کہ ہمار اموقف وہی ہے کہ ہندومسلم اتحاد اور بھائی چارہ ہونا چاہئے،اور اس کے لئے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہے گا،لیکن ۱۴-مارچ کا ہم انتظار کرتے ہیں، تاکہ عدالت علیا اپنی کاروائی شروع کردے،اور میری چیف جسٹس سے عاجزانہ درخواست ہے کہ براہ کرم یومیہ سماعت کے ساتھ مارچ کے اندر ہی اپنا فیصلہ صادر کردیں،۲۵-سال گذرگئے ،کتنے ذمہ دار دنیا سے رخصت ہوگئے،اورکتنے چراغ سحری ہیں،براہ کرم عدالت علیا جلد از جلد اپنا فیصلہ صادر کردے،کہیں ایسا نہ ہو کہ فیصلہ مسلم پرسنل لابورڈ اور جمعیت العلماء کے حق میں آنے والا ہو ،اور میں اس میں رکاوٹ بن جاؤں ،میں تو چاہتا ہی ہوں کہ مسجد بنے،کیسا اچھا ہو کہ ان بزرگوں کی تمناؤں کے مطابق بن جائے،اس دوران اور اس کے بعد ہماری متحدہ کوششیں امن وبھائی چارہ کی جاری رہیں گی، عدالت کے فیصلہ کے بعد بھی جاری رہیں گی(فانتظروا انا معکم منتظرون) ۔
میں مسلمانوں سے کہتا ہوں اگر خدا نخواستہ حالات بگڑتے ہیں تو اب اس کی مکمل ذمہ داری جمعیتہ العلماء اور پرسنل لابورڈ کے کاندھوں پرہوگی،ہم ان کی رائے اور فیصلہ سے عنداللہ اور عندالناس بری ہیں،ہم نے دعوت توحید وانسانیت ،اتحاد واتفاق واخوت ومحبت،شریعت کی وسعت، اور مسالک میں گنجائش کی حجت ایک سو پچیس کروڑ انسانوں کے سامنے پوری کردی۔ اللھم فاشھد- اللھم فاشھد۔
مولاناسیدسلمان حسینی ندوی کی نئی وضاحت
previous post