نایاب حسن
پہلی بات:
چنددن پہلے میں نے ”ابوالکلامیات ” پرایک طالب علمانہ مضمون لکھاتھا، اس سے پہلے بھی مولاناآزادکو پڑھتارہاہوں، مگراس مضمون کو لکھنے کے دوران کچھ ایسی کتابیں بھی مطالعے میں آئیں، جوپہلے نہیں پڑھی تھیں، انہی کتابوں میں ایک مولانااخلاق حسین قاسمی دہلوی کی ’’ترجمان القرآن کاتحقیقی مطالعہ‘‘بھی تھی، اس کے شروع میں انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز کی لائبریری میں محفوظ ’’ترجمان القرآن‘‘کی پہلی جلد کے مسودے کے ”انتساب ” کاعکس شائع کیا گیا ہے، یہ انتساب ترجمان القرآن میں مسلسل چھپ رہاہے، مگراِس عکس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مولاناکے ہاتھ کالکھاہواہے، تحریر صاف ہے، رسم الخط نہایت دل کش اورجاذب ہے، مولانا’’انتساب‘‘کے زیرِعنوان لکھتے ہیں:
’’غالباً دسمبر 1918کاواقعہ ہے کہ میں رانچی میں نظربند تھا، عشاکی نماز سے فارغ ہوکرمسجد سے نکلا، تو مجھے محسوس ہوا کوئی شخص پیچھے آرہا ہے، مڑکے دیکھا، تو ایک شخص کمبل اوڑھے کھڑاتھا:
’’آپ مجھ سے کچھ کہناچاہتے ہیں؟‘‘ (مولانانے اس اجنبی سے دریافت کیا)
’’ہاں جناب، میں بہت دورسے آیا ہوں‘‘۔(اجنبی کاجواب)
مولانانے پوچھا:
’’کہاں سے؟‘‘
اجنبی کاجواب:
’’سرحدپارسے‘‘
مولانانے پھرپوچھا:
’’یہاں کب پہنچے؟‘‘
اجنبی نے جواب دیا:
’’آج شام کو پہنچا، میں بہت غریب آدمی ہوں، قندھارسے پیدل چل کرکوئٹہ پہنچا، وہاں چند ہم وطن سوداگرمل گئے تھے، انھوں نے نوکررکھ لیا اورآگرہ پہنچا دیا، آگرہ سے یہاں تک پیدل چل کر آیاہوں۔‘‘
مولانانے اس اجنبی کی تکالیف کومحسوس کرتے ہوئے دریافت فرمایا:
’’افسوس، تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی؟‘‘
اجنبی کاجواب:
’’اس لیے کہ آپ سے قرآن مجید کے بعض مقامات سمجھ لوں، میں نے الہلال اورالبلاغ کاایک ایک حرف پڑھا ہے؟‘‘
مولانالکھتے ہیں:
’’یہ شخص چند دنوں تک ٹھہرا اورپھریکایک واپس چلاگیا، وہ چلتے وقت اس لیے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھا میں اسے واپسی کے مصارف کے لیے روپیہ دوں گا اوروہ نہیں چاہتاتھا کہ اس کا بار مجھ پر ڈالے، اس نے یقیناً مسافت کا بڑاحصہ پیدل طے کیا ہوگا،مجھے اس کانام یادنہیں، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یانہیں؛ لیکن اگرمیرے حافظہ نے کوتاہی نہ کی ہوتی، تو میں یہ کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا‘‘۔
مولانانے نیچے صفحے کی بائیں جانب دستخط کیاہے اوردائیں جانب 12ستمبر 1931کی تاریخ ڈالی ہے، ’’ترجمان القرآن‘‘کاپہلا ایڈیشن اسی سال شائع ہواتھا۔
دوسری بات:
1959کے اواخرمیں مولانامحمد یوسف کوکنی ایم اے نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے افکاروسوانح پر ایک مبسوط کتاب لکھی، جسے علمی حلقے میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی اور ملک بھرکے دیدہ ورعلماواصحابِ دانش نے مصنفِ کتاب کومبارکبادیاں دیں، انہی میں سے ایک جنوبی ہندکے معروف عالم مولاناحکیم فضل الرحمن سواتی بھی تھے، جوایک عرصے تک جامعہ دارالسلام عمرآباد میں طبی علوم کے استاذبھی رہے….. انھوں نے یوسف صاحب کوایک تفصیلی خط لکھا، جس میں ان کی کتاب کی مختلف خوبیوں کوگنوایا،لکھاکہ یہ کتاب ایسی ہے کہ اسے موجودہ تعلیمی نصاب کاحصہ ہوناچاہیے، ساتھ ہی بعض تاریخی کوتاہیوں کی نشان دہی بھی کی، کتاب کی تعریف کرتے ہوئے انھوں نے لکھاکہ’’کاش یہ کتاب دوسال پہلے شائع ہوجاتی اورحضرت ابن تیمیہ کے سب سے بڑے قدردان کی نظرسے گزرجاتی، تووہ کس قدرخوش ہوجاتے، میں نے مولاناآزادسے بڑھ کر کسی اورکوحضرت ابن تیمیہ کاقدر دان نہیں دیکھاہے‘‘،پھرانھوں نے اپنے استاذ(مولانا عبدالحنان نغمانی) کے بارے میں لکھا کہ کس طرح پہلے وہ ابن تیمیہ کے سخت نقادتھے، مگر جب ’’الہلال‘‘ و’’البلاغ‘‘کے شمارے میں نے انھیں پڑھنے کودیے اوران مضامین کوانھوں نے دیکھا، تو ان کی آنکھیں کھل گئیں، کہنے لگے:
’’مضمون نگارصاحب (مولاناآزاد)بڑے حق گواورجری معلوم ہوتے ہیں، اللہ تعالی ان کوجزائے خیردے، یہ توانھوں نے ہماری بڑی رہنمائی کی اورحضرت ابن تیمیہ کے متعلق جوہم کوغلط فہمی لاحق ہوئی تھی، وہ اس مضمون کے پڑھنے سے بالکل دورہوگئی‘‘۔ پھرانھوں نے ایک مولوی محمد دین قندھاری کاذکرکیاکہ:’’وہ دوتین ماہ پیشترآئے تھے، وہ بھی ابوالکلام صاحب کی جامعیت اورتبحرِ علمی کی تعریف کررہے تھے اورارادہ رکھتے تھے کہ کلکتہ جاکرابوالکلام صاحب کے قائم کردہ ’’دارالارشاد‘‘ میں شریک ہوکر ان سے معارفِ قرآنی کادرس حاصل کریں،میں نے ان کو اس وقت سخت ملامت کی تھی کہ بایں قدرعلم وفضل ایک معمولی اخبارنویس کے سامنے زانوے تلمذتہہ کرنا علم کی توہین ہے؛ لیکن وہ اس بات پرمصرتھے کہ آپ نے’’الہلال‘‘دیکھاہی نہیں ورنہ آپ ایسانہیں کہتے، اب اس مضمون کے پڑھنے سے مجھے اندازہ ہواکہ مولوی محمددین صاحب قندھاری جوکہہ رہے تھے، وہ صحیح کہہ رہے تھے‘‘۔
آگے مولانافضل الرحمن سواتی نے مولانا محمددین قندھاری کے علمی مقام و مرتبے کاذکرکرتے ہوئے لکھاہے کہ وہ ان کے خاص دوستوں میں سے تھے اور معقولات کے ماہرتھے، حتی کہ قاضی محمدمبارک، حمداللہ، شمس بازغہ اورمیرزاہدجیسی کتابیں انھیں ازبرتھیں، پھراخیرعمرمیں ان کا منقولات کی طرف ایسارجوع ہواکہ تفسیر، حدیث اورفقہ کے سواباقی سارے علوم سے گویاتوبہ ہی کرلی، حصولِ علم میں ان کے استغراق کایہ عالم تھاکہ جس جگہ کے بارے میں انھیں معلوم ہوتاکہ وہاں فلاں ادارہ یاشخص دینیات کاماہرہے، تووہ افتاں وخیزاں وہاں پہنچ جاتے اورکچھ دن استفادہ کرتے، پھرلوٹ جاتے، تمام ترعلمی بلند قامتی کے باوجوداس بندے کے شوقِ طلب کی فراوانی کایہ عالم تھاکہ مدرسہ الہیات کانپور میں اپنے شاگرد جیسے علماسے ایک ماہ تک استفادہ کیا،واپسی میں لکھنؤ میں مولانافضل الرحمن سواتی سے ملے، توانھوں نے پوچھا کہ ادھرکہاں؟ توکہا’’مدرسہ الہیات میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے ایک مہینہ رہا، اب وہاں سے آرہاہوں‘‘مولاناان کے مرتبہ شناس تھے، سنتے ہی کہا ’’استغفراللہ،آپ اورمدرسہ الہیات کانپور؟! وہاں کے اساتذہ بھی توآپ کی شاگردی کی استعدادنہیں رکھتے، چہ جائیکہ آپ ان سے تعلیم حاصل کریں‘‘۔
توانھوں نے جواب دیا:
’’چپ رہ! بہت سے معلومات حاصل کرچکاہوں‘‘۔
پھرانھوں نے اپنے خط میں لکھاہے کہ جب مولاناآزاد رانچی میں نظربندی کازمانہ گزاررہے تھے،اسی دوران وہ صاحب قندھار سے رانچی تک کی زیادہ ترمسافت پاپیادہ طے کرکے رانچی پہنچے، کچھ دن مولاناآزاد کے پاس رہے اور استفادہ کیا، اس کے بعد لکھتے ہیں:
’’حضرت مولاناابوالکلام آزاد رحمۃاللہ علیہ نے اپنی معرکۃالآراتفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘کوان کے نام پرمعنون کیا ہے؛ چنانچہ’’ترجمان القرآن‘‘جلداول میں’’انتساب‘‘کے عنوان سے جومختصرسامضمون ہے، اس میں انہی کی طرف اشارہ ہے‘‘۔
یہ پوراخط ماہنامہ ’’برہان‘‘دہلی کے دسمبر1959کے شمارے میں شائع ہواہے اوررسالے کے 9?صفحات پرمشتمل ہے، شروع میں مدیرِ رسالہ مولاناسعیداحمداکبرآبادی نے اپنے نوٹ میں لکھاہے:
’’……حکیم صاحب نے اس شخص کی نشان دہی بھی کردی ہے، جس کے نام مولاناابوالکلام آزادنے اپنی کتاب’’ترجمان القرآن‘‘کومعنون کیا ہے، چوں کہ یہ انکشاف بہت اہم ہے اورایک تاریخی حیثیت رکھتاہے؛ اس لیے خط کے فاضل مکتوب الیہ اورکاتب دونوں کے شکریہ کے ساتھ ہم اس کو ذیل میں شائع کرتے ہیں‘‘۔
تیسری بات:
مذکورہ واقعے سے یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ جاتی ہے کہ مولانا نے ’’ترجمان القرآن‘‘کو کس شخص سے منسوب کیاتھا اور اس کی وجہ کیا تھی۔جب پہلی بار ’’ترجمان القرآن‘‘شائع ہوئی اور علمی حلقوں میں پہنچی، تو جہاں ایک بڑے طبقے میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیاگیا،وہیں بعض حلقوں سے اس کے کچھ حصوں پر اشکالات بھی کیے گئے،جن کی طرف مولانا اخلاق حسین قاسمی دہلوی نے اپنی کتاب’’ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ‘‘ میں اشارے کیے ہیں اور ان اشکالات کے عمدہ جوابات بھی دیے ہیں(جومولانا آزاد کے موافقین و مخالفین دونوں کے لیے مفید ہیں)البتہ تب سے اب تک شاید ہی کسی شخص نے یہ کہایا لکھا ہوکہ مولاناکا یہ انتساب ایک تراشا ہوا افسانہ اور جھوٹا واقعہ ہے۔مگرحال ہی میں ایک جگہ پڑوسی ملک کے ایک مشہورصحافی کے حوالے سے یہ بات نقل کی گئی ہے،ان کانام ہارون الرشیدہے اوران کا ایک انٹرویودوقسطوں میںdaleel.pkنامی بلاگ پر شائع ہوا ہے،ذاتی طورپر میں نے ہارون الرشید صاحب کا صرف نام سناہے،کبھی ان کی تحریر پڑھنے کا شرف حاصل نہیں ہوا،البتہ اس انٹرویو کے شروع میں جن الفاظ میں ان کا تعارف پیش کیاگیا ہے،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پاکستانی صحافت کی کوئی ’’بڑی چیز‘‘ہیں،بہر کیف انٹرویوکا زیادہ تر حصہ ان کی شخصی زندگی، گزشتہ چالیس پچاس سال یا موجودہ دورکی پاکستانی سیاست اور وہاں کی مختلف جماعتوں اور افرادکے گرد جولاں ہے،جن سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں،البتہ ان سوالوں کے بیچ ایک سوال اوراس کا عجیب وغریب جواب دیکھ کر سوچا کہ ان کے جواب کا جواب بھی لکھاجانا ضروری ہے؛کیوں کہ موجودہ دور میں ایسے لوگوں کی بڑی’’فین فالوونگ‘‘ہوتی ہے،جوان کی باتوں پرآنکھ بند کرکے اعتماد کرتی اور پھر جہاں تہاں پھیلاتی پھرتی ہے۔
سوال یہ تھا کہ’’مولانا ابوالاعلیٰ مودودی،مولانا ابوالکلام آزاد مولانا احسن اصلاحی(امین احسن)میں کس کی نثر سے آپ متاثرہیں؟‘‘۔اس کے جواب میں انھوں نے مولانا امین احسن اصلاحی کی نثر کو مولانا مودودی کی نثر سے بہتر قراردیا اوراس کی دلیل بھی پیش کی،البتہ مولانا آزاد تک پہنچتے پہنچتے ان کا پارہ چڑھ گیا اور بات نثر نگاری میں ان کی مشکل پسندی سے یہاں تک پہنچ گئی کہ انھوں نے آزاد کی ذاتیات تک کو زدپرلے لیا۔امین احسن اصلاحی نے ابوسعید بزمی سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ’’ابوالکلام کا دماغ کئی ہزار دماغوں کا نچوڑ ہے‘‘اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے’’تفہیم القرآن‘‘ میں کئی مقامات پر نہ صرف ’’ترجمان القرآن‘‘کے معانی و مفاہیم؛بلکہ الفاظ سے بھی فائدہ اٹھایاہے(شورش کاشمیری،ابوالکلام آزاد:سوانح و افکار،اخلاق حسین قاسمی،ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ)مگر یہ محترم 2017میں کہتے ہیں کہ ابوالکلام کا ان سے موازنہ ’’بیدل اور سعدی کا موازنہ کرنے کے مترادف ہے‘‘،پھر فرماتے ہیں:’’ابوالکلام آزاد مشکل پسند ہیں، غیرضروری طور پر عربی اور فارسی، انہیں کوئی پروا نہیں کہ ان کا قاری بات سمجھتا ہے یا نہیں، انہیں بس اپنے علم کی ہیبت جتانا ہے‘‘۔انٹرویوکے شروع میں جس انداز میں ان کا ’’انٹرو‘‘دیاگیاہے،اس سے تو یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ایک بڑے صحافی ہیں؛بلکہ مختلف علوم و فنون، ادبیاتِ جدید و قدیم اور مختلف شخصیات کے سوانح و افکارسے پوری طرح آگاہ ہیں،مگر آزاد کی نثر کے حوالے سے ان کی یہ بات کتنی سرسری ہے،اس کا اندازہ ہر وہ شخص بآسانی لگا سکتا ہے،جس نے مولانا کی کتابوں اور مختلف زمانی مرحلوں میں لکھی گئی ان کی الگ الگ نثرکو پڑھا ہو،ظاہرہے کہ’’الہلال‘‘و’’البلاغ‘‘کی جو نثر تھی، خطبۂ رام گڑھ میں وہ نثر کہیں بھی نہیں ہے،’’ترجمان القرآن‘‘کا اپنا الگ رنگ و آہنگ ہے،جبکہ ’’غبارِ خاطر‘‘کا نثری بیانیہ ان سب سے بالکل ہی الگ ہے، آزاد کے نثری اسلوب کے تنوع پر بہت سے لوگوں نے لکھا ہے،اگر موصوف واقعی ویسے ہی انسان ہیں،جیسا ان کا تعارف کروایاگیا ہے،توان کے پیشِ نظر وہ چیزیں ہونی چاہیے تھیں اور ان کی روشنی میں کوئی تبصرہ کرنا چاہیے تھا۔اس سے آگے توانھوں نے حد ہی کردی ہے،ارشاد ہے:’’نہایت افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ واقعہ تراش بھی لیتے،مثلاً: اپنی تفسیر کے انتساب میں وہ لکھتے ہیں کہ ایک آدمی مجھ سے ایک آیت سمجھنے کے لیے قندھار سے پیدل چل کر آیا، اگر مجھے اس کا نام یاد ہوتا تو میں یہ انتساب اس کے نام کرتا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایسا کوئی آدمی سرے سے آیا ہی نہیں‘‘۔اب کوئی باشعور انسان اوپر مستند تاریخی حوالوں کے ساتھ مذکورواقعے کو دیکھے اورساتھ ہی اِن صاحب کے بیان و طرزِ بیان کو دیکھے،صحافیانہ سطحیت اور متعصبانہ شپرہ چشمی کی اس سے’’اعلیٰ‘‘مثال شاید کہیں ملے،اس پرطرہ یہ کہ مخاطب کو اپنی بات کا قائل کرنے کے لیے یہ بھی فرمارہے ہیں کہ مذکورہ شخص محض ’’ایک آیت‘‘سمجھنے کے لیے قندھارسے رانچی پہنچاتھا،جبکہ مولانا فضل الرحمن سواتی کے خط میں مطلق ’’معارفِ قرآنی‘‘سمجھنے کی بات ہے اور مولانا آزاد نے اپنے انتساب میں’’قرآن کے بعض مقامات‘‘سمجھنے کی بات لکھی ہے۔آپ ہی بتائیں کیامولانا آزاد اس قدر خود پسنداور افسانہ ساز تھے کہ تفسیرِ قرآن جیسے موضوع کی اہمیت کو بھی نہ سمجھااور لوگوں کی توجہ کھینچنے کے لیے اس کا افسانوی انتساب لکھ دیا؟
’’غبارِ خاطر‘‘کے آخری خط میں مولانا نے موسیقی کے فنی و تاریخی پہلووں پرنہایت دلچسپ و معلومات افزا گفتگو کی ہے،اس کے ساتھ ساتھ اپنی کہانی بھی بیان کی ہے کہ کس طرح فن موسیقی کی تعلیم و تربیت حاصل کی ،اسی ضمن میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک بارآگرے کا سفرہوا اور وہاں کچھ دن قیام بھی رہا،اس دوران کی اپنی مصروفیات کے بارے میں لکھتے ہیں:’’اپریل کا مہینہ تھا اور چاندنی کی ڈھلتی ہوئی راتیں تھیں، جب رات کی پچھلی پہر شروع ہونے کو ہوتی،توچاند پردۂ شب ہٹاکر یکایک جھانکنے لگتا،میں نے خاص طورپر کوشش کرکے ایسا انتظام کررکھا تھا کہ رات کو ستار لے کر تاج چلاجاتا اور اس کی چھت پر جمنا کے رخ بیٹھ جاتا،پھر جونہی چاندنی پھیلنے لگتی ستار پر کوئی گت چھیڑ دیتا اور اس میں محو ہوجاتا‘‘۔(ص:308)یہ تو16؍ستمبر1943قلعۂ احمد نگر سے لکھے گئے خط کی عبارت ہے،اسی مضمون کی عبارت مولانا کے خطوط کے دوسرے مجموعے’’کاروانِ خیال‘‘میں بھی تحریر ہوئی ہے،وہ خط مولانانے26؍اکتوبر1940کو کلکتہ سے لکھا ہے،اس میں الفاظ کچھ الگ ہیں۔(ص:88)
ہارون الرشیدصاحب ’’انتساب‘‘والی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اولاً تو یہی اعتراف کرنے کو تیار نہیں کہ آزاد کبھی آگرہ گئے ،پھر اعتراض ہے کہ اگر گئے بھی،تو تاج محل کی چھت پر کیوں جاتے تھے،جبکہ وہ نیچے سے تاج کو زیادہ اچھے سے دیکھ سکتے تھے،فرماتے ہیں:’’وہ کہتے ہیں کہ میں تاج محل کی چھت پر بیٹھ کر ستار بجایا کرتا، کبھی کسی نے انہیں آگرہ میں دیکھا ہی نہیں،ان کے ساتھ کبھی کوئی گیا ہی نہیں، انہوں نے کبھی اس کا ذکر ہی کسی سے نہیں کیا کہ ستار بجانے کے لیے تاج محل کی چھت پر جایا کرتے، پھر ایسی بھی کیا آفت پڑی تھی کہ تاج محل کی چھت پر ستار بجائیں، تاج محل نیچے ہے، آپ اسے دیکھ ہی نہیں رہے اور چھت پر ہلکان ہورہے ہیں‘‘۔
خاص ’’غبارِ خاطر‘‘کے خطوط یا مولاناکے ملکی و بیرونی اسفار پردسیوں لوگوں نے لکھاہے،تحقیقی نقطۂ نظر سے بھی اور تنقیدی زاویے سے بھی،مگر آج تک (میرے محدود علم ومطالعے کے مطابق) شایدکسی نے یہ نہیں کہایا لکھا کہ مولانا کبھی آگرہ نہیں گئے،ہارون صاحب کو اگر یہ ’’اہم ترین‘‘بات معلوم ہوئی ہے،تو یوں مُضحِک انداز میں بیان کرنے کی بجاے سنجیدگی اور متعلقہ ذرائع کی نشان دہی کے ساتھ بیان کرنا تھا،انھوں نے ایک بڑا دعویٰ کیا ہے اور علم وتحقیق کی دنیا میں ایسے بے دلیل کے دعوے کی کوئی وقعت نہیں ہوتی؛بلکہ یہ دعویٰ خود ان کے اپنے ہلکے پن کی دلیل بن جائے گا۔دوسری بات یہ کہ مولاناتاج کو دیکھنے کے لیے چھت پر نہیں چڑھتے تھے؛بلکہ جیسا کہ خود ان کے خط کی عبارت سے واضح ہے،وہ ڈھلتی رات میں طلوع ہونے والے چاند کی جمال انگیزی کو محسوس کرنااور اس کے حسن سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ جگہ موزوں تھی۔
چوتھی بات:
اسی طرح مذکورہ سوال کے سطور یا بین السطور میں کہیں بھی مولانا حسین احمد مدنی کا ذکرنہیں ہے،مگر موصوف کے طنزوتعریض کارخ’’غالباً بے اختیارانہ‘‘ مولانا مدنی کی طرف بھی ہوگیا ہے،کہتے ہیں:’’ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ مولانا حسین احمد مدنی کا نام بغیر وضو کے نہیں لینا چاہیے‘‘۔وہ صاحب کون تھے،اس کی نشان دہی کرناتھی،یوں گول مول بات کرکے کسی شخصیت پر کیچڑ اچھالنا اپنے دل کے چور کو ظاہر کرنا ہے؛کیوں کہ ظاہرہے ہندوپاک ہی نہیں،دنیابھرمیں کہیں بھی پایاجانے والا مولانا حسین احمد مدنی کا کوئی بھی باہوش معتقد ایسا نہیں سوچ سکتا،اگر خدانخواستہ ان کے کسی معتقد کا ایسا عقیدہ ہے یا وہ ایسا سوچتاہے،تو وہ اس کی اپنی کج فکری ہے اور قطعی غلط ہے،مگر کیا اس کی وجہ سے مولانا حسین احمد مدنی کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑیں گے؟موصوف مذکورہ بے سرپیرکی بات نقل کرنے کے بعد اپنے دل کی اصل بھڑاس یوں نکالتے ہیں:’’حسین احمد مدنی کو شیخ العرب والعجم کہتے ہیں،عرب و عجم کے شیخ تو بس آخری رسول ﷺتھے یا سیدنا ابراہیمؑ ،جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کہا’’میں آپ کو تمام انسانوں کا امام بنادوں گا‘‘۔ جنابِ عالی!یہ تووہی بات ہوئی کہ مارے گھٹنا،پھوٹے سر،کیا حسین احمد مدنی کو’’ شیخ العرب والعجم‘‘ اُنہی معنوں میں کہا جاتاہے،جہاں آپ اسے کھینچ کر لے جانا چاہ رہے ہیں؟اب ہم یہ تونہیں کہہ سکتے کہ جناح صاحب کو’’قائدِ اعظم‘‘یعنی سب سے بڑا لیڈرکیوں کہا جاتاہے؟مسلمانوں کے اصل لیڈراورسب سے بڑے راہنما تو نبی اکرمﷺ ہیں اور دیکھاجائے تواپنے منطوق و مفہوم کے اعتبار سے ’’قائدِ اعظم‘‘ تو ’’شیخ العرب والعجم‘‘سے خاصا’’بھاری بھرکم‘‘خطاب ہے۔لیکن چوں کہ سب کو پتا ہے کہ جناح صاحب کو ’’قائدِ اعظم‘‘کس Senseمیں کہا جاتا ہے؛یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا ہرطبقہ بلاتفریقِ مسلک و فرقہ انھیں ’’قائدِ اعظم‘‘کہتا اور لکھتا ہے اور کسی کا ذہن کبھی اس طرف نہیں گیا کہ مسلمانوں کے قائدِ اعظم تواصلاً نبی پاکﷺکی بابرکت ذات ہے،ٹھیک یہی معاملہ’’شیخ العرب والعجم‘‘کا بھی ہے۔ عربی زبان میں ”شیخ ”کے ایک معروف معنی توعمردراز اور ضعیف العمرکے ہیں، جبکہ علمی حلقوں میں اس کادوسرامتداول معنی ہے استاذ، ماہرِ علوم وفنون وغیرہ اور آج کل مخصوص سیاسی خطابات کے سابقے یالاحقے کے طورپربھی اس کا استعمال ہورہاہے، اسلامی تاریخِ علم وفکرمیں ”شیخ الاسلام ”ایک دینی منصب رہا ہے اوراس کامطلب یہی ہے، وہ شخص جواسلامی علوم وافکار میں درک رکھتاہو، جیسے کہ حافظ ابن تیمیہ وغیرہ اورمولانا حسین احمدمدنی کوجولوگ ”شیخ العرب والعجم ”کہتے ہیں، تووہ اسی لیے کہ انھوں نے عرب (مسجدنبوی)وعجم (دیوبند)میں علمِ حدیث پڑھایا ہے، جو معنی آں جناب نے لیایالینا چاہاہے،اس طرف تودنیا بھرمیں شایدہی کسی کا ذہن جائے۔اسی طرح ’’شیخ‘‘اور ’’امام‘‘میں ایک واضح فرق ہے،’’شیخ‘‘کے مفہوم میں علمی،فکری ،سیاسی یا سماجی وجاہت کا مفہوم پائے جانے کے باوجودعام طورپر یہ اس کے مفہوم کا حصہ نہیں ہے کہ جو شیخ ہوگا ، تمام لوگ اس کی اتباع بھی کریں گے،جبکہ امام کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ شخص جس کی اقتدااور پیروی کی جائے،جب حضرت ابراہیمؑ اللہ تعالیٰ کی جانب سے لیے گئے امتحانات میں کامیاب ہوگئے ، توانھیں بدلے کے طورپریہ خوش خبری دی گئی کہ انھیں لوگوں کا امام بنایا جاتا ہے،حضرت ابراہیم ؑ کو فوراً ہی اپنی اولاد کا خیال آیااور کہا’’میری اولاد کو بھی‘‘ توجواب آیاکہ ’’میرا یہ وعدہ(آپ کی اولاد میں سے) ظالموں کے لیے نہیں ہے‘‘ (البقرہ،آیت:124)محترم ہارون الرشید صاحب نے یہاں بھی اپنی علمی ہیبت جتانے کے لیے غلط استدلال سے کام لیاہے۔
اس جواب کے اخیر میں ان کا کہنا ہے کہ:’’ضرور مولانا حسین احمد مدنی متقی آدمی ہوں گے،قابلِ احترام،مگر ایسا کیاکارنامہ انھوں نے انجام دیاہے؟کوئی ایک جملہ ہی سنادیجیے‘‘۔ ہارون صاحب کے انٹروڈکشن میں ان کی جو خصوصیات گنوائی گئی ہیں،ان میں ایک یہ بھی ہے کہ’’ ان کی نثر میں دلکش کلاسیکی انداز کے ساتھ تاریخ،ادب اور قرآن و سنت کی ایقان افروز جھلکیاں ملتی ہیں‘‘،یعنی ایک صحافی ہونے کے باوجود ان کے مضامین میں قرآن وسنت کے اقتباسات اور حوالے وغیرہ آتے رہتے ہیں،جوگویاان کاایک ”امتیازی وصف ”ٹھہرا،دوسری جانب حسین احمد مدنی ہیں،جنھوں نے دس سال سے زائد حرمِ مدنی میں حدیثِ نبوی کا درس دیا اور اس کے بعد لگ بھگ تیس سال تک دارالعلوم دیوبند میں بھی علمِ حدیث پڑھاتے رہے،اب متحدہ قومیت کی وکالت کرنے کی بناپر اگر حسین احمد مدنی کی سیاسی سرگرمیاں، قیدوبند کے مشقت آمیزلمحات اور ملک بھر کے مسلمانوں میں حصولِ آزادی کی تڑپ پیدانے کرنے کی تگ و دوآپ کے یہاں کوئی معنی نہیں رکھتی،توآپ جیسے اسلامی ملک کے پکے مسلمان کو کم ازکم حسین احمد مدنی کی علمِ حدیث کی خدمت کوتوکسی خانے میں رکھ لینا چاہیے۔
آخری بات:
خلاصہ یہ ہے کہ آزاد یا حسین احمد مدنی کے بارے میں انھوں نے جوکچھ بھی فرمایا ہے،وہ نہایت ہی لچر اور سطحیتِ فکرونظر کا شاہکار ہے اورنہ معلوم انھوں نے کس زعم میں یہ فرمایا ہے اور ان کا مقصد کیا ہے،سمجھ نہیں آتاکہ اس طرح بے سرپیرکی اڑاکر آخر کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟آپ کو اپنا یا اپنے ہیرو کا قد اونچا کرنا ہے،تواس کے لیے یہ ضروری تونہیں کہ اس کے مقابلے میں کسی کو بونا ثابت کرکے یہ کام کیا جائے،پھر یہ کہ آپ سورج کو غبار آلود کرنے لگ جائیں یا چاند پرتھوکنے لگیں،تو یہ کوئی عقل مندی تھوڑی ہوئی،آپ اپنے یا اپنے ہیروکے مثبت کارناموں کواُجالیے، اُچھالیے اورآپ اپنے میں مست رہیے،ہم اپنے میں مست ہیں،لکھنے اور بولنے کو کس کے پاس کیا نہیں ہے،خواہ مخواہ اس طرح کے شگوفے چھوڑنے سے کیا فائدہ،پھریہ کہ اگراس قسم کے موضوعات پراظہارِ خیال کاشوق ہی ہے، توپھرتنقید وتجزیہ کامعروضی ومنطقی سٹائل اختیارکرناچاہیے، جبکہ آں محترم کے الفاظ، بیان کے تیور اورنکیلے طرزِ اداسے صاف محسوس ہوتاہے کہ خودبھی
چنددن پہلے میں نے ”ابوالکلامیات ” پرایک طالب علمانہ مضمون لکھاتھا، اس سے پہلے بھی مولاناآزادکو پڑھتارہاہوں، مگراس مضمون کو لکھنے کے دوران کچھ ایسی کتابیں بھی مطالعے میں آئیں، جوپہلے نہیں پڑھی تھیں، انہی کتابوں میں ایک مولانااخلاق حسین قاسمی دہلوی کی ’’ترجمان القرآن کاتحقیقی مطالعہ‘‘بھی تھی، اس کے شروع میں انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز کی لائبریری میں محفوظ ’’ترجمان القرآن‘‘کی پہلی جلد کے مسودے کے ”انتساب ” کاعکس شائع کیا گیا ہے، یہ انتساب ترجمان القرآن میں مسلسل چھپ رہاہے، مگراِس عکس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مولاناکے ہاتھ کالکھاہواہے، تحریر صاف ہے، رسم الخط نہایت دل کش اورجاذب ہے، مولانا’’انتساب‘‘کے زیرِعنوان لکھتے ہیں:
’’غالباً دسمبر 1918کاواقعہ ہے کہ میں رانچی میں نظربند تھا، عشاکی نماز سے فارغ ہوکرمسجد سے نکلا، تو مجھے محسوس ہوا کوئی شخص پیچھے آرہا ہے، مڑکے دیکھا، تو ایک شخص کمبل اوڑھے کھڑاتھا:
’’آپ مجھ سے کچھ کہناچاہتے ہیں؟‘‘ (مولانانے اس اجنبی سے دریافت کیا)
’’ہاں جناب، میں بہت دورسے آیا ہوں‘‘۔(اجنبی کاجواب)
مولانانے پوچھا:
’’کہاں سے؟‘‘
اجنبی کاجواب:
’’سرحدپارسے‘‘
مولانانے پھرپوچھا:
’’یہاں کب پہنچے؟‘‘
اجنبی نے جواب دیا:
’’آج شام کو پہنچا، میں بہت غریب آدمی ہوں، قندھارسے پیدل چل کرکوئٹہ پہنچا، وہاں چند ہم وطن سوداگرمل گئے تھے، انھوں نے نوکررکھ لیا اورآگرہ پہنچا دیا، آگرہ سے یہاں تک پیدل چل کر آیاہوں۔‘‘
مولانانے اس اجنبی کی تکالیف کومحسوس کرتے ہوئے دریافت فرمایا:
’’افسوس، تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی؟‘‘
اجنبی کاجواب:
’’اس لیے کہ آپ سے قرآن مجید کے بعض مقامات سمجھ لوں، میں نے الہلال اورالبلاغ کاایک ایک حرف پڑھا ہے؟‘‘
مولانالکھتے ہیں:
’’یہ شخص چند دنوں تک ٹھہرا اورپھریکایک واپس چلاگیا، وہ چلتے وقت اس لیے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھا میں اسے واپسی کے مصارف کے لیے روپیہ دوں گا اوروہ نہیں چاہتاتھا کہ اس کا بار مجھ پر ڈالے، اس نے یقیناً مسافت کا بڑاحصہ پیدل طے کیا ہوگا،مجھے اس کانام یادنہیں، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یانہیں؛ لیکن اگرمیرے حافظہ نے کوتاہی نہ کی ہوتی، تو میں یہ کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا‘‘۔
مولانانے نیچے صفحے کی بائیں جانب دستخط کیاہے اوردائیں جانب 12ستمبر 1931کی تاریخ ڈالی ہے، ’’ترجمان القرآن‘‘کاپہلا ایڈیشن اسی سال شائع ہواتھا۔
دوسری بات:
1959کے اواخرمیں مولانامحمد یوسف کوکنی ایم اے نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے افکاروسوانح پر ایک مبسوط کتاب لکھی، جسے علمی حلقے میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی اور ملک بھرکے دیدہ ورعلماواصحابِ دانش نے مصنفِ کتاب کومبارکبادیاں دیں، انہی میں سے ایک جنوبی ہندکے معروف عالم مولاناحکیم فضل الرحمن سواتی بھی تھے، جوایک عرصے تک جامعہ دارالسلام عمرآباد میں طبی علوم کے استاذبھی رہے….. انھوں نے یوسف صاحب کوایک تفصیلی خط لکھا، جس میں ان کی کتاب کی مختلف خوبیوں کوگنوایا،لکھاکہ یہ کتاب ایسی ہے کہ اسے موجودہ تعلیمی نصاب کاحصہ ہوناچاہیے، ساتھ ہی بعض تاریخی کوتاہیوں کی نشان دہی بھی کی، کتاب کی تعریف کرتے ہوئے انھوں نے لکھاکہ’’کاش یہ کتاب دوسال پہلے شائع ہوجاتی اورحضرت ابن تیمیہ کے سب سے بڑے قدردان کی نظرسے گزرجاتی، تووہ کس قدرخوش ہوجاتے، میں نے مولاناآزادسے بڑھ کر کسی اورکوحضرت ابن تیمیہ کاقدر دان نہیں دیکھاہے‘‘،پھرانھوں نے اپنے استاذ(مولانا عبدالحنان نغمانی) کے بارے میں لکھا کہ کس طرح پہلے وہ ابن تیمیہ کے سخت نقادتھے، مگر جب ’’الہلال‘‘ و’’البلاغ‘‘کے شمارے میں نے انھیں پڑھنے کودیے اوران مضامین کوانھوں نے دیکھا، تو ان کی آنکھیں کھل گئیں، کہنے لگے:
’’مضمون نگارصاحب (مولاناآزاد)بڑے حق گواورجری معلوم ہوتے ہیں، اللہ تعالی ان کوجزائے خیردے، یہ توانھوں نے ہماری بڑی رہنمائی کی اورحضرت ابن تیمیہ کے متعلق جوہم کوغلط فہمی لاحق ہوئی تھی، وہ اس مضمون کے پڑھنے سے بالکل دورہوگئی‘‘۔ پھرانھوں نے ایک مولوی محمد دین قندھاری کاذکرکیاکہ:’’وہ دوتین ماہ پیشترآئے تھے، وہ بھی ابوالکلام صاحب کی جامعیت اورتبحرِ علمی کی تعریف کررہے تھے اورارادہ رکھتے تھے کہ کلکتہ جاکرابوالکلام صاحب کے قائم کردہ ’’دارالارشاد‘‘ میں شریک ہوکر ان سے معارفِ قرآنی کادرس حاصل کریں،میں نے ان کو اس وقت سخت ملامت کی تھی کہ بایں قدرعلم وفضل ایک معمولی اخبارنویس کے سامنے زانوے تلمذتہہ کرنا علم کی توہین ہے؛ لیکن وہ اس بات پرمصرتھے کہ آپ نے’’الہلال‘‘دیکھاہی نہیں ورنہ آپ ایسانہیں کہتے، اب اس مضمون کے پڑھنے سے مجھے اندازہ ہواکہ مولوی محمددین صاحب قندھاری جوکہہ رہے تھے، وہ صحیح کہہ رہے تھے‘‘۔
آگے مولانافضل الرحمن سواتی نے مولانا محمددین قندھاری کے علمی مقام و مرتبے کاذکرکرتے ہوئے لکھاہے کہ وہ ان کے خاص دوستوں میں سے تھے اور معقولات کے ماہرتھے، حتی کہ قاضی محمدمبارک، حمداللہ، شمس بازغہ اورمیرزاہدجیسی کتابیں انھیں ازبرتھیں، پھراخیرعمرمیں ان کا منقولات کی طرف ایسارجوع ہواکہ تفسیر، حدیث اورفقہ کے سواباقی سارے علوم سے گویاتوبہ ہی کرلی، حصولِ علم میں ان کے استغراق کایہ عالم تھاکہ جس جگہ کے بارے میں انھیں معلوم ہوتاکہ وہاں فلاں ادارہ یاشخص دینیات کاماہرہے، تووہ افتاں وخیزاں وہاں پہنچ جاتے اورکچھ دن استفادہ کرتے، پھرلوٹ جاتے، تمام ترعلمی بلند قامتی کے باوجوداس بندے کے شوقِ طلب کی فراوانی کایہ عالم تھاکہ مدرسہ الہیات کانپور میں اپنے شاگرد جیسے علماسے ایک ماہ تک استفادہ کیا،واپسی میں لکھنؤ میں مولانافضل الرحمن سواتی سے ملے، توانھوں نے پوچھا کہ ادھرکہاں؟ توکہا’’مدرسہ الہیات میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے ایک مہینہ رہا، اب وہاں سے آرہاہوں‘‘مولاناان کے مرتبہ شناس تھے، سنتے ہی کہا ’’استغفراللہ،آپ اورمدرسہ الہیات کانپور؟! وہاں کے اساتذہ بھی توآپ کی شاگردی کی استعدادنہیں رکھتے، چہ جائیکہ آپ ان سے تعلیم حاصل کریں‘‘۔
توانھوں نے جواب دیا:
’’چپ رہ! بہت سے معلومات حاصل کرچکاہوں‘‘۔
پھرانھوں نے اپنے خط میں لکھاہے کہ جب مولاناآزاد رانچی میں نظربندی کازمانہ گزاررہے تھے،اسی دوران وہ صاحب قندھار سے رانچی تک کی زیادہ ترمسافت پاپیادہ طے کرکے رانچی پہنچے، کچھ دن مولاناآزاد کے پاس رہے اور استفادہ کیا، اس کے بعد لکھتے ہیں:
’’حضرت مولاناابوالکلام آزاد رحمۃاللہ علیہ نے اپنی معرکۃالآراتفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘کوان کے نام پرمعنون کیا ہے؛ چنانچہ’’ترجمان القرآن‘‘جلداول میں’’انتساب‘‘کے عنوان سے جومختصرسامضمون ہے، اس میں انہی کی طرف اشارہ ہے‘‘۔
یہ پوراخط ماہنامہ ’’برہان‘‘دہلی کے دسمبر1959کے شمارے میں شائع ہواہے اوررسالے کے 9?صفحات پرمشتمل ہے، شروع میں مدیرِ رسالہ مولاناسعیداحمداکبرآبادی نے اپنے نوٹ میں لکھاہے:
’’……حکیم صاحب نے اس شخص کی نشان دہی بھی کردی ہے، جس کے نام مولاناابوالکلام آزادنے اپنی کتاب’’ترجمان القرآن‘‘کومعنون کیا ہے، چوں کہ یہ انکشاف بہت اہم ہے اورایک تاریخی حیثیت رکھتاہے؛ اس لیے خط کے فاضل مکتوب الیہ اورکاتب دونوں کے شکریہ کے ساتھ ہم اس کو ذیل میں شائع کرتے ہیں‘‘۔
تیسری بات:
مذکورہ واقعے سے یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ جاتی ہے کہ مولانا نے ’’ترجمان القرآن‘‘کو کس شخص سے منسوب کیاتھا اور اس کی وجہ کیا تھی۔جب پہلی بار ’’ترجمان القرآن‘‘شائع ہوئی اور علمی حلقوں میں پہنچی، تو جہاں ایک بڑے طبقے میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیاگیا،وہیں بعض حلقوں سے اس کے کچھ حصوں پر اشکالات بھی کیے گئے،جن کی طرف مولانا اخلاق حسین قاسمی دہلوی نے اپنی کتاب’’ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ‘‘ میں اشارے کیے ہیں اور ان اشکالات کے عمدہ جوابات بھی دیے ہیں(جومولانا آزاد کے موافقین و مخالفین دونوں کے لیے مفید ہیں)البتہ تب سے اب تک شاید ہی کسی شخص نے یہ کہایا لکھا ہوکہ مولاناکا یہ انتساب ایک تراشا ہوا افسانہ اور جھوٹا واقعہ ہے۔مگرحال ہی میں ایک جگہ پڑوسی ملک کے ایک مشہورصحافی کے حوالے سے یہ بات نقل کی گئی ہے،ان کانام ہارون الرشیدہے اوران کا ایک انٹرویودوقسطوں میںdaleel.pkنامی بلاگ پر شائع ہوا ہے،ذاتی طورپر میں نے ہارون الرشید صاحب کا صرف نام سناہے،کبھی ان کی تحریر پڑھنے کا شرف حاصل نہیں ہوا،البتہ اس انٹرویو کے شروع میں جن الفاظ میں ان کا تعارف پیش کیاگیا ہے،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پاکستانی صحافت کی کوئی ’’بڑی چیز‘‘ہیں،بہر کیف انٹرویوکا زیادہ تر حصہ ان کی شخصی زندگی، گزشتہ چالیس پچاس سال یا موجودہ دورکی پاکستانی سیاست اور وہاں کی مختلف جماعتوں اور افرادکے گرد جولاں ہے،جن سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں،البتہ ان سوالوں کے بیچ ایک سوال اوراس کا عجیب وغریب جواب دیکھ کر سوچا کہ ان کے جواب کا جواب بھی لکھاجانا ضروری ہے؛کیوں کہ موجودہ دور میں ایسے لوگوں کی بڑی’’فین فالوونگ‘‘ہوتی ہے،جوان کی باتوں پرآنکھ بند کرکے اعتماد کرتی اور پھر جہاں تہاں پھیلاتی پھرتی ہے۔
سوال یہ تھا کہ’’مولانا ابوالاعلیٰ مودودی،مولانا ابوالکلام آزاد مولانا احسن اصلاحی(امین احسن)میں کس کی نثر سے آپ متاثرہیں؟‘‘۔اس کے جواب میں انھوں نے مولانا امین احسن اصلاحی کی نثر کو مولانا مودودی کی نثر سے بہتر قراردیا اوراس کی دلیل بھی پیش کی،البتہ مولانا آزاد تک پہنچتے پہنچتے ان کا پارہ چڑھ گیا اور بات نثر نگاری میں ان کی مشکل پسندی سے یہاں تک پہنچ گئی کہ انھوں نے آزاد کی ذاتیات تک کو زدپرلے لیا۔امین احسن اصلاحی نے ابوسعید بزمی سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ ’’ابوالکلام کا دماغ کئی ہزار دماغوں کا نچوڑ ہے‘‘اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے’’تفہیم القرآن‘‘ میں کئی مقامات پر نہ صرف ’’ترجمان القرآن‘‘کے معانی و مفاہیم؛بلکہ الفاظ سے بھی فائدہ اٹھایاہے(شورش کاشمیری،ابوالکلام آزاد:سوانح و افکار،اخلاق حسین قاسمی،ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ)مگر یہ محترم 2017میں کہتے ہیں کہ ابوالکلام کا ان سے موازنہ ’’بیدل اور سعدی کا موازنہ کرنے کے مترادف ہے‘‘،پھر فرماتے ہیں:’’ابوالکلام آزاد مشکل پسند ہیں، غیرضروری طور پر عربی اور فارسی، انہیں کوئی پروا نہیں کہ ان کا قاری بات سمجھتا ہے یا نہیں، انہیں بس اپنے علم کی ہیبت جتانا ہے‘‘۔انٹرویوکے شروع میں جس انداز میں ان کا ’’انٹرو‘‘دیاگیاہے،اس سے تو یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ایک بڑے صحافی ہیں؛بلکہ مختلف علوم و فنون، ادبیاتِ جدید و قدیم اور مختلف شخصیات کے سوانح و افکارسے پوری طرح آگاہ ہیں،مگر آزاد کی نثر کے حوالے سے ان کی یہ بات کتنی سرسری ہے،اس کا اندازہ ہر وہ شخص بآسانی لگا سکتا ہے،جس نے مولانا کی کتابوں اور مختلف زمانی مرحلوں میں لکھی گئی ان کی الگ الگ نثرکو پڑھا ہو،ظاہرہے کہ’’الہلال‘‘و’’البلاغ‘‘کی جو نثر تھی، خطبۂ رام گڑھ میں وہ نثر کہیں بھی نہیں ہے،’’ترجمان القرآن‘‘کا اپنا الگ رنگ و آہنگ ہے،جبکہ ’’غبارِ خاطر‘‘کا نثری بیانیہ ان سب سے بالکل ہی الگ ہے، آزاد کے نثری اسلوب کے تنوع پر بہت سے لوگوں نے لکھا ہے،اگر موصوف واقعی ویسے ہی انسان ہیں،جیسا ان کا تعارف کروایاگیا ہے،توان کے پیشِ نظر وہ چیزیں ہونی چاہیے تھیں اور ان کی روشنی میں کوئی تبصرہ کرنا چاہیے تھا۔اس سے آگے توانھوں نے حد ہی کردی ہے،ارشاد ہے:’’نہایت افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ واقعہ تراش بھی لیتے،مثلاً: اپنی تفسیر کے انتساب میں وہ لکھتے ہیں کہ ایک آدمی مجھ سے ایک آیت سمجھنے کے لیے قندھار سے پیدل چل کر آیا، اگر مجھے اس کا نام یاد ہوتا تو میں یہ انتساب اس کے نام کرتا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایسا کوئی آدمی سرے سے آیا ہی نہیں‘‘۔اب کوئی باشعور انسان اوپر مستند تاریخی حوالوں کے ساتھ مذکورواقعے کو دیکھے اورساتھ ہی اِن صاحب کے بیان و طرزِ بیان کو دیکھے،صحافیانہ سطحیت اور متعصبانہ شپرہ چشمی کی اس سے’’اعلیٰ‘‘مثال شاید کہیں ملے،اس پرطرہ یہ کہ مخاطب کو اپنی بات کا قائل کرنے کے لیے یہ بھی فرمارہے ہیں کہ مذکورہ شخص محض ’’ایک آیت‘‘سمجھنے کے لیے قندھارسے رانچی پہنچاتھا،جبکہ مولانا فضل الرحمن سواتی کے خط میں مطلق ’’معارفِ قرآنی‘‘سمجھنے کی بات ہے اور مولانا آزاد نے اپنے انتساب میں’’قرآن کے بعض مقامات‘‘سمجھنے کی بات لکھی ہے۔آپ ہی بتائیں کیامولانا آزاد اس قدر خود پسنداور افسانہ ساز تھے کہ تفسیرِ قرآن جیسے موضوع کی اہمیت کو بھی نہ سمجھااور لوگوں کی توجہ کھینچنے کے لیے اس کا افسانوی انتساب لکھ دیا؟
’’غبارِ خاطر‘‘کے آخری خط میں مولانا نے موسیقی کے فنی و تاریخی پہلووں پرنہایت دلچسپ و معلومات افزا گفتگو کی ہے،اس کے ساتھ ساتھ اپنی کہانی بھی بیان کی ہے کہ کس طرح فن موسیقی کی تعلیم و تربیت حاصل کی ،اسی ضمن میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک بارآگرے کا سفرہوا اور وہاں کچھ دن قیام بھی رہا،اس دوران کی اپنی مصروفیات کے بارے میں لکھتے ہیں:’’اپریل کا مہینہ تھا اور چاندنی کی ڈھلتی ہوئی راتیں تھیں، جب رات کی پچھلی پہر شروع ہونے کو ہوتی،توچاند پردۂ شب ہٹاکر یکایک جھانکنے لگتا،میں نے خاص طورپر کوشش کرکے ایسا انتظام کررکھا تھا کہ رات کو ستار لے کر تاج چلاجاتا اور اس کی چھت پر جمنا کے رخ بیٹھ جاتا،پھر جونہی چاندنی پھیلنے لگتی ستار پر کوئی گت چھیڑ دیتا اور اس میں محو ہوجاتا‘‘۔(ص:308)یہ تو16؍ستمبر1943قلعۂ احمد نگر سے لکھے گئے خط کی عبارت ہے،اسی مضمون کی عبارت مولانا کے خطوط کے دوسرے مجموعے’’کاروانِ خیال‘‘میں بھی تحریر ہوئی ہے،وہ خط مولانانے26؍اکتوبر1940کو کلکتہ سے لکھا ہے،اس میں الفاظ کچھ الگ ہیں۔(ص:88)
ہارون الرشیدصاحب ’’انتساب‘‘والی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اولاً تو یہی اعتراف کرنے کو تیار نہیں کہ آزاد کبھی آگرہ گئے ،پھر اعتراض ہے کہ اگر گئے بھی،تو تاج محل کی چھت پر کیوں جاتے تھے،جبکہ وہ نیچے سے تاج کو زیادہ اچھے سے دیکھ سکتے تھے،فرماتے ہیں:’’وہ کہتے ہیں کہ میں تاج محل کی چھت پر بیٹھ کر ستار بجایا کرتا، کبھی کسی نے انہیں آگرہ میں دیکھا ہی نہیں،ان کے ساتھ کبھی کوئی گیا ہی نہیں، انہوں نے کبھی اس کا ذکر ہی کسی سے نہیں کیا کہ ستار بجانے کے لیے تاج محل کی چھت پر جایا کرتے، پھر ایسی بھی کیا آفت پڑی تھی کہ تاج محل کی چھت پر ستار بجائیں، تاج محل نیچے ہے، آپ اسے دیکھ ہی نہیں رہے اور چھت پر ہلکان ہورہے ہیں‘‘۔
خاص ’’غبارِ خاطر‘‘کے خطوط یا مولاناکے ملکی و بیرونی اسفار پردسیوں لوگوں نے لکھاہے،تحقیقی نقطۂ نظر سے بھی اور تنقیدی زاویے سے بھی،مگر آج تک (میرے محدود علم ومطالعے کے مطابق) شایدکسی نے یہ نہیں کہایا لکھا کہ مولانا کبھی آگرہ نہیں گئے،ہارون صاحب کو اگر یہ ’’اہم ترین‘‘بات معلوم ہوئی ہے،تو یوں مُضحِک انداز میں بیان کرنے کی بجاے سنجیدگی اور متعلقہ ذرائع کی نشان دہی کے ساتھ بیان کرنا تھا،انھوں نے ایک بڑا دعویٰ کیا ہے اور علم وتحقیق کی دنیا میں ایسے بے دلیل کے دعوے کی کوئی وقعت نہیں ہوتی؛بلکہ یہ دعویٰ خود ان کے اپنے ہلکے پن کی دلیل بن جائے گا۔دوسری بات یہ کہ مولاناتاج کو دیکھنے کے لیے چھت پر نہیں چڑھتے تھے؛بلکہ جیسا کہ خود ان کے خط کی عبارت سے واضح ہے،وہ ڈھلتی رات میں طلوع ہونے والے چاند کی جمال انگیزی کو محسوس کرنااور اس کے حسن سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ جگہ موزوں تھی۔
چوتھی بات:
اسی طرح مذکورہ سوال کے سطور یا بین السطور میں کہیں بھی مولانا حسین احمد مدنی کا ذکرنہیں ہے،مگر موصوف کے طنزوتعریض کارخ’’غالباً بے اختیارانہ‘‘ مولانا مدنی کی طرف بھی ہوگیا ہے،کہتے ہیں:’’ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ مولانا حسین احمد مدنی کا نام بغیر وضو کے نہیں لینا چاہیے‘‘۔وہ صاحب کون تھے،اس کی نشان دہی کرناتھی،یوں گول مول بات کرکے کسی شخصیت پر کیچڑ اچھالنا اپنے دل کے چور کو ظاہر کرنا ہے؛کیوں کہ ظاہرہے ہندوپاک ہی نہیں،دنیابھرمیں کہیں بھی پایاجانے والا مولانا حسین احمد مدنی کا کوئی بھی باہوش معتقد ایسا نہیں سوچ سکتا،اگر خدانخواستہ ان کے کسی معتقد کا ایسا عقیدہ ہے یا وہ ایسا سوچتاہے،تو وہ اس کی اپنی کج فکری ہے اور قطعی غلط ہے،مگر کیا اس کی وجہ سے مولانا حسین احمد مدنی کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑیں گے؟موصوف مذکورہ بے سرپیرکی بات نقل کرنے کے بعد اپنے دل کی اصل بھڑاس یوں نکالتے ہیں:’’حسین احمد مدنی کو شیخ العرب والعجم کہتے ہیں،عرب و عجم کے شیخ تو بس آخری رسول ﷺتھے یا سیدنا ابراہیمؑ ،جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کہا’’میں آپ کو تمام انسانوں کا امام بنادوں گا‘‘۔ جنابِ عالی!یہ تووہی بات ہوئی کہ مارے گھٹنا،پھوٹے سر،کیا حسین احمد مدنی کو’’ شیخ العرب والعجم‘‘ اُنہی معنوں میں کہا جاتاہے،جہاں آپ اسے کھینچ کر لے جانا چاہ رہے ہیں؟اب ہم یہ تونہیں کہہ سکتے کہ جناح صاحب کو’’قائدِ اعظم‘‘یعنی سب سے بڑا لیڈرکیوں کہا جاتاہے؟مسلمانوں کے اصل لیڈراورسب سے بڑے راہنما تو نبی اکرمﷺ ہیں اور دیکھاجائے تواپنے منطوق و مفہوم کے اعتبار سے ’’قائدِ اعظم‘‘ تو ’’شیخ العرب والعجم‘‘سے خاصا’’بھاری بھرکم‘‘خطاب ہے۔لیکن چوں کہ سب کو پتا ہے کہ جناح صاحب کو ’’قائدِ اعظم‘‘کس Senseمیں کہا جاتا ہے؛یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا ہرطبقہ بلاتفریقِ مسلک و فرقہ انھیں ’’قائدِ اعظم‘‘کہتا اور لکھتا ہے اور کسی کا ذہن کبھی اس طرف نہیں گیا کہ مسلمانوں کے قائدِ اعظم تواصلاً نبی پاکﷺکی بابرکت ذات ہے،ٹھیک یہی معاملہ’’شیخ العرب والعجم‘‘کا بھی ہے۔ عربی زبان میں ”شیخ ”کے ایک معروف معنی توعمردراز اور ضعیف العمرکے ہیں، جبکہ علمی حلقوں میں اس کادوسرامتداول معنی ہے استاذ، ماہرِ علوم وفنون وغیرہ اور آج کل مخصوص سیاسی خطابات کے سابقے یالاحقے کے طورپربھی اس کا استعمال ہورہاہے، اسلامی تاریخِ علم وفکرمیں ”شیخ الاسلام ”ایک دینی منصب رہا ہے اوراس کامطلب یہی ہے، وہ شخص جواسلامی علوم وافکار میں درک رکھتاہو، جیسے کہ حافظ ابن تیمیہ وغیرہ اورمولانا حسین احمدمدنی کوجولوگ ”شیخ العرب والعجم ”کہتے ہیں، تووہ اسی لیے کہ انھوں نے عرب (مسجدنبوی)وعجم (دیوبند)میں علمِ حدیث پڑھایا ہے، جو معنی آں جناب نے لیایالینا چاہاہے،اس طرف تودنیا بھرمیں شایدہی کسی کا ذہن جائے۔اسی طرح ’’شیخ‘‘اور ’’امام‘‘میں ایک واضح فرق ہے،’’شیخ‘‘کے مفہوم میں علمی،فکری ،سیاسی یا سماجی وجاہت کا مفہوم پائے جانے کے باوجودعام طورپر یہ اس کے مفہوم کا حصہ نہیں ہے کہ جو شیخ ہوگا ، تمام لوگ اس کی اتباع بھی کریں گے،جبکہ امام کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ شخص جس کی اقتدااور پیروی کی جائے،جب حضرت ابراہیمؑ اللہ تعالیٰ کی جانب سے لیے گئے امتحانات میں کامیاب ہوگئے ، توانھیں بدلے کے طورپریہ خوش خبری دی گئی کہ انھیں لوگوں کا امام بنایا جاتا ہے،حضرت ابراہیم ؑ کو فوراً ہی اپنی اولاد کا خیال آیااور کہا’’میری اولاد کو بھی‘‘ توجواب آیاکہ ’’میرا یہ وعدہ(آپ کی اولاد میں سے) ظالموں کے لیے نہیں ہے‘‘ (البقرہ،آیت:124)محترم ہارون الرشید صاحب نے یہاں بھی اپنی علمی ہیبت جتانے کے لیے غلط استدلال سے کام لیاہے۔
اس جواب کے اخیر میں ان کا کہنا ہے کہ:’’ضرور مولانا حسین احمد مدنی متقی آدمی ہوں گے،قابلِ احترام،مگر ایسا کیاکارنامہ انھوں نے انجام دیاہے؟کوئی ایک جملہ ہی سنادیجیے‘‘۔ ہارون صاحب کے انٹروڈکشن میں ان کی جو خصوصیات گنوائی گئی ہیں،ان میں ایک یہ بھی ہے کہ’’ ان کی نثر میں دلکش کلاسیکی انداز کے ساتھ تاریخ،ادب اور قرآن و سنت کی ایقان افروز جھلکیاں ملتی ہیں‘‘،یعنی ایک صحافی ہونے کے باوجود ان کے مضامین میں قرآن وسنت کے اقتباسات اور حوالے وغیرہ آتے رہتے ہیں،جوگویاان کاایک ”امتیازی وصف ”ٹھہرا،دوسری جانب حسین احمد مدنی ہیں،جنھوں نے دس سال سے زائد حرمِ مدنی میں حدیثِ نبوی کا درس دیا اور اس کے بعد لگ بھگ تیس سال تک دارالعلوم دیوبند میں بھی علمِ حدیث پڑھاتے رہے،اب متحدہ قومیت کی وکالت کرنے کی بناپر اگر حسین احمد مدنی کی سیاسی سرگرمیاں، قیدوبند کے مشقت آمیزلمحات اور ملک بھر کے مسلمانوں میں حصولِ آزادی کی تڑپ پیدانے کرنے کی تگ و دوآپ کے یہاں کوئی معنی نہیں رکھتی،توآپ جیسے اسلامی ملک کے پکے مسلمان کو کم ازکم حسین احمد مدنی کی علمِ حدیث کی خدمت کوتوکسی خانے میں رکھ لینا چاہیے۔
آخری بات:
خلاصہ یہ ہے کہ آزاد یا حسین احمد مدنی کے بارے میں انھوں نے جوکچھ بھی فرمایا ہے،وہ نہایت ہی لچر اور سطحیتِ فکرونظر کا شاہکار ہے اورنہ معلوم انھوں نے کس زعم میں یہ فرمایا ہے اور ان کا مقصد کیا ہے،سمجھ نہیں آتاکہ اس طرح بے سرپیرکی اڑاکر آخر کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟آپ کو اپنا یا اپنے ہیرو کا قد اونچا کرنا ہے،تواس کے لیے یہ ضروری تونہیں کہ اس کے مقابلے میں کسی کو بونا ثابت کرکے یہ کام کیا جائے،پھر یہ کہ آپ سورج کو غبار آلود کرنے لگ جائیں یا چاند پرتھوکنے لگیں،تو یہ کوئی عقل مندی تھوڑی ہوئی،آپ اپنے یا اپنے ہیروکے مثبت کارناموں کواُجالیے، اُچھالیے اورآپ اپنے میں مست رہیے،ہم اپنے میں مست ہیں،لکھنے اور بولنے کو کس کے پاس کیا نہیں ہے،خواہ مخواہ اس طرح کے شگوفے چھوڑنے سے کیا فائدہ،پھریہ کہ اگراس قسم کے موضوعات پراظہارِ خیال کاشوق ہی ہے، توپھرتنقید وتجزیہ کامعروضی ومنطقی سٹائل اختیارکرناچاہیے، جبکہ آں محترم کے الفاظ، بیان کے تیور اورنکیلے طرزِ اداسے صاف محسوس ہوتاہے کہ خودبھی
متعلقہ شخصیتوں کی تحقیرکررہے ہیں اورسامنے والے کویہ تاثربھی دے رہے ہیں کہ میری باتیں سو فیصد سچ ہیں ۔