پروفیسر محسن عثمانی ندوی
اقبال نے کہا تھا جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر ۔ تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریف سنگ دنیا میں باعزت زندگی گذارنے کے لئے اور اپنے زجاج کو حریف سنگ کرنے کے لئے حالات سے گہری واقفیت ضروری ہے حقائق پر نظر ضروری ہے گہرا تجزیہ ضروری ہے ۔ایک منظراپنے ملک کا اس وقت یہ ہے کہ مسلمان زندگی کے تمام شعبوں میں پسماندہ ہیں اور ان کے ساتھ نا انصافیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ پرسنل لا میں مداخلت کا دروازہ کھل گیاہے ۔حوادث کا پیہم نزول ، ارباب اقتدار کی جارحانہ زبان ،پولس اور حکومت کی مشنری کا جانبدارانہ رویہ اور مسلمان ایک پر شکستہ طائر زیر دام کی طرح نالہ سنج ، اور بسمل کی طرح بس فریاد کناں ۔یہ منظر ایک طرف ہے دوسرا منظر یہ ہے کہ مہاراشٹرا میں دلتوں نے جو سدا سے مظلوم رہے ہیں اس بار ظلم کرنے والوں برہمن وادیوں پرہندوتوا کی تنظیموں پر جم کر سنگ باری کی اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ۔ پونے اور ممبئی میں دلتوں کے جلوس کی قہر سامانی اور نعروں کی زہر افشانی سے برہمن وادی خائف اور لرزہ بر اندام تھے ، مہاراشٹر کی فرقہ پرست پولس بے حس وحرکت تھی ۔ پہلے ہر جگہ ایسا ہوتا آیا تھا کہ مسلمانوں نے معمولی دفاع کی
کوشش کی تو ان پر گولیوں کی بوچھار کردی گئی ہر طرف مسلمانوں کی لاشیں ہی لاشیں نظر آیا کرتی تھیں ۔ لیکن مہاراشٹرا میں دلت غضبناک ہوئے تو پولیس نے اپنی جانوں کی قربانی دے دی لیکن :گولی نہیں چلائی اور بے بسی کے ساتھ سنگ باری اور خشت زنی کے طوفان کاتماشہ دیکھتی رہی ۔ مہاراشٹر کے بھیما کورے کاوں میں دلتوں پر مشتمل مہار رجمنٹ کے شہیدوں کی یادگار پر ہر سال دلت جمع ہوتے ہیں اور مراٹھا حکمراں باجی راو پیشوا اور برہمن واد پر اپنی فتح کی یاد مناتے ہیں جب انہوں نے انگریزوں سے مل کر برہمن پیشواوں کے فوجیوں کو مار گرایا تھا۔ اس وقت مہاراشٹر میں حکومت کی مشنری کو خطرہ تھا کہ اگر دلت ناراض ہوگئے اور انہوں نے پورے ملک میں اقلیتوں کو ساتھ لے لیا تو ۲۰۱۹ کے الکشن میں ہندو تو کی اور برہمنوں کی بساط الٹ سکتی ہے ۔
۔یہاں اس کی وضاحت ضروری ہے کہ مریض ملت کے لئے نسخہ شفا بھی تمام نسخہ ہائے علاج کی طرح بعض دواؤں کا مرکب ہے یہ ملٹی لائین ہائی وے کے مانند ہے ۔ دلت مسلم تعلقات کے ساتھ مسلمانوں کی تعلیمی اور اقتصادی بہتری کے لئے کام کرنا بھی بہت ضروری ہے اور تعلیم سے مراد عصری تعلیم ہے کہ امپاورمنٹ کا یہی ذریعہ ہے چونکہ مسلمانوں کے تحفظ اور ترقی کا مدا ر عصری تعلیم پر ہے اس لئے عصری تعلیم کی دینی اہمیت بھی ہوجاتی ہے، مسلم امپاورمنٹ دلتوں کے ساتھ روابط اور عصری تعلیم اور اقتصادیات میں بہتری سے ممکن ہے اوراسی عصری تعلیم سے مسلمانوں کے پاس پبلک سکٹر میں اور پرائویٹ سکٹر میں کلیدی انتظامی عہدے آسکتے ہیں اور مجالس قانون ساز میں بھی دلت مسلم اتحاد کے ذریعہ سے ان کی نمائندگی ہوسکتی ہے ۔ دلت مسلم اتحاد کے ساتھ مسلمانوں میں عصری تعلیم ضروری ہے مسلمان اگر نئے اسکول نہیں قاسم کرسکتے ہیں تو ان کے پاس بڑے مدارس کو چھوڑ کر عام دینی مدارس کا جوعمارتی انفرا اسیٹرکچر ہے اس کو صباحی یا شبینہ ہائی اسکول کی تعلیم کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ عصری تعلیم اور اقتصادی اعتبار سے استحکام بھی سیاسی امپاورمنٹ کا اہم ذریعہ ہے اگر بات سمجھ میں آجائے تو دینی مدارس کے عمارتی انفرا اسٹرکچر کو ہائی اسکول تک کی تعلیم کے لئے استعمال کیا جائے اور اس کام کو بھی دینی کام سمجھا جائے ٔ۔تحفظ شریعت کا کام بھی امپاورمنٹ کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لئے سیاسی امپاورمنٹ کے لئے جو امکان موجود ہو اسے استعمال کرنا چاہئے اور اسے دینی کام سمجھنا چاہئے ۔اقتصادی امپاور منٹ کے لئے اسمال اسکیل انڈسٹریزی کا جال بچھانے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان تمام کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی لیکن عزم راسخ ہو تو رکاوٹیں دور بھی ہوجاتی ہیں ۔
ہم ہندوستانی مسلمان مجبور محصور اور مقہور ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ ہندتو کا غلبہ ہے اور مسلمانوں کی سیاسی طاقت کا بالکلیہ ختم ہوجانا ہے وہ مسلمان جنہوں نے شروع میں آدھی سے زیادہ دنیا فتح کرلی تھے اب وہ خو د مفتوح اور بے نشان بنتے جارہے ہیں ہندوستان میں مسلمانوں کاسیاسی امپاورمنٹ تمام مسائل کا حل ہے اور دلت مسلم اتحاد امپاورمنٹ کی شاہراہ ہے حیدراباد کے پروفیسر اور دلت لیڈر کنچا الیا نے کئی بار دلت مسلم اتحاد کا نعرہ لگایا ہے دہلی میں ابھی اس آئی او کی کانفرنس میں ایک مشہور دلت لیڈر جگنیش میوانی نے دلت مسلم اتحاد کی بات کی۔دلتوں کیُ لیڈر بابا صاحب امبیڈکر نے کہا تھا کہ ہم دلت بن کر ہندو دھرم میں پیدا ہوئے تھے یہ ان کے اختیار میں نہیں تھا، لیکن وہ ہندو نہیں مریں گے یہ ان کے اختیار میں ہے چنانچہ انہوں نے بودھ دھرم قبول کرلیا تھا اور ان کی تقلید میں بہت سے دلتوں نے بودھ مذہب قبول کرلیا انہیں یقین تھا کہ آبائی مذہب کو چھوڑے بغیر سماجی انصاف کا حصو ل ممکن نہیںہے۔انہوں نے کہا تھا کہ دلت طبقہ کو اسلام دھرم عیسائی دھرم اور سکھ دھرم میں کسی ایک کا انتخاب کرنا چاہئے یہ الگ بات ہے کہ خود انہوں نے بودھ مذہب قبول کیا غالبا اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے دیکھا کہ تقسیم ملک کے بعدہندوستان میں مسلمان بہت کمزور ہوگئے ہیں نحیف ، ناتواں ،بالکل نیم جاں ۔پاکستان بننے کے نفصانات میں سے یہ ایک نقصان تھا ۔ عیسائی بھی ملک میں زیادہ نہیں تھے اورابھی تک نہیں ہیں جن سے دلتو ںکو تقویت ہو،اس لئے انہوں نے اسلام اور عیسائیت کسی کو قبول نہیں کیا البتہ گرد پیش میں چین، جاپان، لنکا، برما، تھائی لینڈ میں بودھوں کی آبادی کافی تھی اسلئے انہوں نے بودھ مذہب کو ترجیح دی ۔اگر پاکستا ن نہ بنتا اور مسلمانوں کی سیاسی طاقت ہوتی تو غالبا ڈاکٹر امبیڈکر کا فیصلہ دوسرا ہوتا۔ لیکن اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ دلت ہندو مذہب کو چھوڑنا چاہتے ہیں اور عددی قوت سے بہرہ ور ہیں اور مسلمانوں کو اپنے ساتھ لینا چاہتے ہیں اور مسلمان بھی ان کی مدد کے محتاج ہیں۔
ہندوستان میں شہر حیدراباد میں بامسیف کی تحریک نے دلت مسلم اتحاد کا لائق تقلید نمونہ پیش کیا ہے تلنگانہ آندھرا میں دلت مسلم یونائیٹیڈ فرنٹ قائم کرلیا گیا ہے ،مہاراشٹرا میں مولانا سجاد نعمانی نے اسی نوعیت کا کام شروع کیا ہے،ڈاکٹر منظور عالم کی سوچ بھی یہی ہے کہ ہم اپنے حقوق کی لڑائی سیکولر ہندو اور دلتوں کے ساتھ مل کر لڑ سکتے ہیں،مسلم جماعتوں کا نیٹ ورک بھی یہ کام انجام دے سکتا ہے،پھر ہر کام کو قیادت کے سپرد کرکے خود کو بری الذمہ کرلینا بھی ٹھیک نہیں ۔ راستہ چلتے ہوئے مزدور، مہتر جاروب کش ملتے ہیں ۔پکوڑے خرید کر ان کو بلا کر کسی درخت یا دیوارکے سایہ میں بیٹھ کر ان کے ساتھۃ محبت کو پروان چڑھانے اور کھانے پینے سے بھی دلت مسلم اتحاد کو فروغ اور اسلام کے نظریہ مساوات کا اعلان ہوسکتا ہے۔ اس وقت حالات سازگار ہیں، اس وقت او بی سی اور پسماندہ طبقات اور دلت سب برہمن واد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ اقلیتوں کا ان کے ساتھ اتحاد ضروری ہے۔اس لئے اس لے کو تیز کرنے اور اس تحریک میں تیزی لانے کی ضرورت ہے :
موسم اچھا پانی وافر مٹی بھی زرخیز
ایسے میں جو کھیت نہ سینچے وہ کیسا دہقان
موسم اچھا پانی وافر مٹی بھی زرخیز
previous post