Home تجزیہ موجودہ دورکے دینی جلسے: چندقابلِ غورپہلو

موجودہ دورکے دینی جلسے: چندقابلِ غورپہلو

by قندیل

عظیم اختر
M: 9810439067
اگر مدارسِ دینیہ میں قرآن اور حدیث کا درس دینے والے علمائے کرام اور مساجد کے ممبروں سے اللہ اور اس کے رسولؐ کے پیغام کی تعلیم دے کر امتِ مسلمہ کو ذہنی اور عملی طورپر اسلامی سانچے میں ڈھالنے کا فریضہ انجام دینے والے ائمہ حضرات کے یہاں بھی دنیوی سیاست کرنے والوں کی طرح احتجاجی جلسے جلوس منعقد کر کے اور ریلیاں نکال کر باوزن بننے اور ارباب اقتدار کو اپنی طاقت دکھانے اور ان سے در پردہ سودے بازی کرنے کا جذبہ کروٹیں لینے لگے اور ضلعی سطح سے لے کر قومی سطح پر کانفرنسیں کرنے کا شوق جڑ پکڑ جائے تو پھر وہی ہوتا ہے جو آج کل شمالی ہندوستان بالخصوص اتر پردیش ، بہار اور دہلی جیسے علاقوں میں مسلمانوں کے ملّی اور سماجی مسائل کے پردے میں جلسوں اورریلیوں کا سلسلہ باڑھ کی شکل میں نظر آرہا ہے ۔ اتر پردیش ور بہار کے مختلف شہروں میں اس قسم کے جلسوں میں جید اور ممتاز علمائے کرام اور ائمہ حضرات کو باقاعدہ مدعو کیا جاتا ہے اور آمد و رفت کے تمام اخراجات منتظمین برداشت کرتے ہیں لیکن مولویانِ کرام اور ائمہ حضرات کو ان کانفرنسوں میں اپنے خرچے پر شرکت کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے جس کے لیے کثیر الاشاعت سمجھے جانے والے اخبارات میں خطیر رقوم خرچ کر کے پورے پورے صفحات کے اشتہارات شائع کرانا ایک عام سی بات ہے۔ اگر اردو اخبارات کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے نظر آتی ہے کہ اس قسم کی کانفرنسوں ، ریلیوں اور جلسوں کا چلن صرف شمالی ہند کے چند مخصوص علاقوں میں ہی ہے اور جنوبی ہند کے مسلمانوں میں اس نہج پر کانفرنسیں منعقد کر کے تعظیمی و تکریمی لاحقوں اور سابقوں سے لدے پھندے علمائے کرام کی ایمان افروز تقاریر سننے کا شاید ابھی وہ شعور پیدا نہیں ہوا ہے جو شمالی ہند بالخصوش اتر پردیش کی چند ملی تنظیموں نے ’بیکار مباش کچھ کیا کر‘ کے مصداق یہاں کے مسلمانوں کا ایک عام مزاج بنا دیا ہے، جن میں گفتار کے غازی علمائے کرام کی ایمان افروز تقاریر پر کلمہ گوؤں کا مجمع سر دھنتا ہے اور کانفرنسوں کے اختتام کے بعد ہاتھ اور کپڑے جھاڑ کر گھر کا رخ کرتا ہے اور مقررین حضرات ملت کا مرثیہ پڑھ کر دل ہی دل میں کہ کہہ کر خوش ہو لیتے ہیں کہ میں اپنے کوخود داد دے لوں کہ میں بھی کیا قیامت ہوں۔
مسلمانوں کی دنیوی تعلیم کے میدان میں پسماندگی کے اہم اور حساس ترین مسئلہ کو طاق پر رکھ کر دوسرے مسائل پر منعقد کی جانے والی ان کی ان کانفرنسوں میں عام طورپر اس شہر کے سیدھے سادے بے چارے عام مسلمان یا پھر مدارس دینیہ کے طلباء ہی علمائے کرام اور ائمہ حضرات کی ولولہ انگیز اور ایمان افروز تقاریر سن کر سر دھنتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس قسم کی کانفرنسوں اور ریلیوں کی اخباری اور ٹی وی کو ریج دیکھ کر اور مقررین کی تقاریر کے اقتباسات پڑھ کر اور سن کر ہمیں ہمیشہ یہ احساس ہوتا ہے کہ بستر علالت پر لیٹا ہوا نڈھال مریض بے چارہ جھولا چھاپ ڈاکٹروں اور نیم حکیموں کے ہتھے چڑھ گیا ہے،جو دوا کے نام پر مریض کو اس کے لواحقین کو بہلانے اور بٹلانے کی بھرپور صلاحیتیں رکھتے ہیں۔
آج سے بیس پچیس سال پہلے اس قسم کی کانفرنسوں اور جلسوں کے انعقاد کے بارے میں اخبارات میں کئی کئی دن چھوٹے بڑے اشتہارات دینے کا کوئی رواج اور چلن نہیں تھا۔ متعلقہ شہر کے عوام کی اطلاع کے لیے وہاں کے مسلم محلوں کی دیواروں پر پوسٹرز چسپاں کر دیے جاتے تھے۔ آج اخبارات میں اشتہار بازی نے ان کانفرنسوں کا اسٹیٹس(Status) ہی بدل دیا ہے جس سے صرف سیاسی کھیل مقصود ہوتا ہے۔ ہم نے اپنے بچپن سے لے کر اب تک پرانی دہلی کے مسلم محلوں میں اصلاحِ معاشرہ، پیغامِ انسانیت، تحفظِ سنت، تحفظِ ختمِ نبوت، اتحاد بین المسلمین، تحفظِ آئین ، قومی یکجہتی، رواداری اور اسی قسم کے موضوعات پر منعقد کی جانے والی درجنوں کانفرنسوں اور جلسوں کے چسپاں انگنت پوسٹرز یہاں کی دیواروں پر پڑھے اور دیکھے ہیں۔ اصلاحِ مسلم معاشرہ جیسے حساس اور اہم موضوع پر دہلی کے کسی نہ کسی علاقے میں ہر سال کانفرنس کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں علمائے کرام قرآن و سنت کے حوالے سے دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں، ان تقریروں کے سحر میں گم ہو کر سامعین اکثر و بیشتر ’اللہ اکبر‘ کے بے ساختہ نعرے لگاتے ہیں۔ کانفرنس کے اختتام پر دعائیں کی جاتی ہیں۔ اصلاحِ معاشرہ ، اتحاد بین المسلمین وغیرہ کے موضوع پر یک روزہ کانفرنس سے لے کر دو روزہ اور سہ روزہ کانفرنسوں کا چلن عام ہے۔ ہم نے اوائل عمر سے لے کر اب تک دلی کے مختلف علاقوں میں اصلاح معاشرہ اور اصلاحِ مسلمین کے موضوعات پر منعقد کی گئی درجنوں کانفرنسوں میں شرکت کی ہے، بڑے بڑے اور جید عالموں کی تقریریں سنی ہیں، ہر کانفرنس میں پُر شکوہ اندازِ بیان کو سن کر بس یہی احساس ہوتا تھا کہ اگلے دن کا سورج جب طلوع ہوگا تو مسلم معاشرہ ہر قسم کی خرافات اور بدعتوں سے پاک صاف نظر آئے گا اور ہر بالغ مسلمان مرد اور عورت کی روز مرہ کی زندگی اسلامی سانچے میں ڈھلی ہوئی نظر آئے گی، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد۔ اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ مسلمین کے عنوان سے منعقد کی جانے والی سیکڑوں کانفرنسوں اور جلسوں کے باوجود مسلم معاشرہ آج بھی وہیں کھڑا ہوا ہے اور اصلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک کی ہمہ جہت ترقی کے نتیجے میں مسلمانوں کے دروں پر دستک دینے والی خوشحالی اور آسودہ حالی نے زمانے کے ساتھ چلنے کے نام پر ایسی انگنت خرابیوں کو جنم دیا ہے جو مسلم گھرانوں میں شادی بیاہ کے موقعوں پر اپنا بھرپور جلوہ دکھاتی ہیں اور سادگی جو اسلامی تعلیمات کی روح کی حیثیت رکھتی ہے دور دور تک نظر نہیں آتی بلکہ دکھاوے کا جادو سرچڑھ کر بولتا ہے۔
یہی حال مسلم تنظیموں اور علمائے کرام کی طرف سے قومی یکجہتی و رواداری، بھائی چارہ، باہمی میل ملاپ، اتحاد بین المذاہب، تحفظِ دستورِ ہند وغیرہ وغیرہ کے موضوعات پر ہندوستان کے مختلف شہروں مین منعقد کی جانے والی کانفرنسوں کا ہے۔ ان موضوعات پر منعقد کیے جانے والے جلسوں اور کانفرنسوں میں سامعین تو سو فیصد کلمہ گو حضرات ہی ہوتے ہیں، لیکن مقررین میں جید علمائے کرام کے ساتھ ایک آدھ غیر مسلم مقرر کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے تاکہ محسوس ہو کہ تالی دونوں ہاتھ سے بج رہی ہے۔ قومی یکجہتی اور باہمی اخوت کے موضوع پر مشاعرے اور کانفرنسیں و جلسے کرنا ہم مسلمانوں اور اردو والو ں کا محبوب مشغلہ ہے۔گویا کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک قومی یکجہتی، مذہبی رواداری، باہمی اخوت اور بھارئی چارے کی صدیوں پرانی روایتوں کو زندہ رکھنا اور فروغ دینا صرف ہندوستانی مسلمانوں کی ہی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اس حقیقت سے شاید ہی انکار کیا جا سکے کہ شمالی بھارت کے انگنت چھوٹے بڑے شہروں میں اب تک ان موضوعات پر سیکڑوں مشاعرے اور کانفرنسیں منعقد کی جا چکی ہیں، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ یہ المیہ سے کم نہیں کہ ہمارے ملک کے دوسرے مذہبی، لسانی طبقوں نے آج تک ان موضوعات کی شدت کو محسوس نہیں کیا، جس کی وجہ سے بھارت کیا ان طبقوں میں ان موضوعات پر کانفرنسیں اور جلسے وغیرہ منعقد کرنے کا کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے۔ اگر ان طبقوں نے ان موضوعات کی اہمیت اور شدت کو بھرپور طریقے سے محسوس کیا ہوتا تو رشی منیوں، صوفی سنتوں، سادھو اور گروؤں کی اس دھرتی پر ان کی تعلیمات کے یوں پرخچے اڑتے ہوئے کبھی نظر نہ آتے اور ہمارے علمائے کرام اور ائمہ مساجد کو درس و تدریس کی مسند اور منبر کو چھوڑ کر آئے دن کی کانفرنسوں اور جلسوں میں یوں وقت ضائع نہ کرنا پڑتا جن پر اس ملت کا لاکھوں روپیہ بے نتیجہ ضائع ہو رہا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان لا یعنی کانفرنسوں نے ہمارے علمائے کرام اور بہت سے ائمہ مساجد کو ملک کے سیاسی اور سماجی منظر نامے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے جہاں شہرت ان کے قدم چوم رہی ہے اور جب شہرت قدم چومنے لگے تو ثروت گھر کی راہ دیکھ ہی لیتی ہے، یہی حال ہمارے آج کے علمائے کرام اور ائمہ مساجد کا ہے جن کے بزرگ بوریا نشیں اور نام و نمود سے بے نیاز تھے، تعریفی و توصیفی لاحقوں اور سابقوں کی ان کو ضرورت نہیں تھی لیکن آج تعریفی و توصیفی سابقوں کی اس قدر بہتات ہے کہ کانفرنسوں اور جلسوں کے اشتہارات میں حضرت جی کا نامِ نامی تلاش کرنے کے بعد ہی نظر آتا ہے۔ ناموں اور شخصیتوں کی اس نمائش میں مسلم تنظیموں کی طرف سے افادیت سے محروم منعقد کی جانے والی آئے دن کی یہ کانفرنسیں اور جلسے نشستند، گفتند، خوردند اور بر خاستند سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔

You may also like

Leave a Comment