Home نظم مملکت شاہ کلیسا

مملکت شاہ کلیسا

by قندیل

سعودی عرب کے حالیہ اقدامات کے تناظر میں

تازہ ترین سلسلہ(62)

 فضیل احمد ناصری

بے چین ہے ہر سینۂ حق درد و الم سے
القدس گیا ہے جو سعودی کے قدم سے

گو دیر ہوئی، راز سے پردہ تو اٹھا ہی
ہے مملکتِ شاہ کلیسا کے کرم سے

یوں ہو گئے یہ گیسوئے مغرب کے دِوانے
کچھ ان کو شکایت نہ رہی اہلِ ستم سے

یہ کون سی مخلوق ہےجبّےکی تہوں میں
واقف نہیں تو بھی تو ملاقات کر ہم سے

کہتے ہیں کہ یہ دیں ہے تشدد کا پٹارا
نرمائیں گے ہم اس کو کلیسا کے قلم سے

ان اہلِ تعیش کا عجب حال ہے یارو!
اللہ سے وحشت تو قرابت ہے صنم سے

اسلام، نہ اسلام کی تہذیب سے مطلب
ہے ان کو سروکار فقط جاہ و حشم سے

مل جائیں گے یہ خیمۂ دجال سے اک دن
گو ان کا سراپا ہے جدا خاکِ عجم سے

ثابت کیا اے شاہِ عرب! تیری روش نے
کاسہ مرا بہتر ہے ترے ساغرِ جم سے

یہ ارضِ مقدس ہے مسلماں کی امانت
ان دَیر نشینوں کو نکلواؤ حرم سے

You may also like

2 comments

سعید الرحمن سعدی 16 دسمبر, 2017 - 17:41

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مدیرانِ قندیل کا شکریہ کہ انھوں نے جناب عنبر ناصری صاحب کے تازہ ترین سلسلے کو شائع کرنے کا خوبصورت سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اس تازہ ترین سلسلے کی جب سے شروعات ہوئی ہے،بلامبالغہ ہر اگلے سلسلے کا ایسے ہی انتظار رہتا ہے جیسے کسی خوبصورت افسانہ وناول کی اگلی قسط کا،میری اپنی محدود و مختصر علمی زندگی میں انتظار وشوق کا یہ جذبہ کسی اور زندہ شاعر کے لیے نہیں سامنے آیا۔
ویسے تو پہلے بھی عنبر صاحب کے کلام کی معنویت،مقصدیت،زمین ،تعبیر اور بعض الفاظ و اصطلاحات کو پڑھ کر ماضی قریب وبعید کے اسلام پسند اور قابل فخر شعرا کا تصور اور ان کی شبیہ ایک جھماکے کے ساتھ ذہن میں آجایا کرتی تھی،تاہم اس سلسلے کو پڑھتے ہوئے جب” صنم کلیسا،مغرب،ساغر جم،خاک عجم اوردیر نشیں” جیسے الفاظ پر نگاہیں پڑیں،تو نہ پوچھیے یادوں کے کتنے در کھلے،اور تصورات کے کن گلیاروں سے گزر ہوا،بس مختصر یہ کہ روح اور وجدان نے ایک عجیب سی لذت محسوس کی،جس کو الفاظ اور تعبیرات کے پیکر میں ڈھالنا میرے لیے دشوار ہے۔
اب خیالستان سے باہر نکل کر ذرا واقعیت پسندی کی طرف آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس خوبصورت نظم میں جہاں ایک مومن کا درد،اس کی غیرت و حمیت،سادگی،فقر اسلامی اور جذبۂ خوداری نظر آتی ہے وہیں شہنشاہیت وملوکیت کےمہلک وجود،آمران سعودی عرب سمیت ناخدایان اسلامی مملکت کے مذموم تعیش اور اسلام ومسلانوں کے حوالے سے سعودی کے حالیہ اقدامات وہفوات پر افسوس،جھنجھلاہٹ،طنز غصہ،نصیحت،تنبیہ،تہدید، انجام بد کی پیش گوئی اور دعوتِ انقلاب؛ بھی ابھر کر سامنے آتا ہے،کاش شاعر کا جذبہ واقعی دنیا میں اسلامیان عالم کا جذبہ بن جائے،اور ان کی صدا ہم سب کی صداؤں سے مل کر ان ظالموں کے حق میں "صیحۂ خداوندی” ثابت ہو۔
بات جب واقعیت پسندی کی نکلی ہے تو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ویسے تو عنبر ناصری صاحب وزن اور بحر کی سالمیت میں اپنے حلقے میں مستند سمجھے جاتے ہیں،اور اس نظم میں بھی انھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے،”بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف(مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن) کو بڑی خوبصورتی سے آپ نے برتا ہے،تاہم زود گوئی اور جلد بازی میں "واقف نہیں تو بھی تو ملاقات کر ہم سے”؛ اس مصرعے میں ایک نقص در آیا ہے، اس کا بحر "مفعول مفاعیل مفاعیلن فِعلن” ہے جو کہ ایک غیر مستعمل وزن ہے،امید ہے کے شاعر محترم اس جسارت کو چشم حقیقت سے دیکھیں گے۔
یوں تو یہ پوری نظم کافی عمدہ ہے،تاہم آخری چار اشعار؛ جو میرے حساب سے خلاصۂ نظم اور آوازِ دل ہے،جی چاہتا ہے کہ گنگناتارہوں اور سردھنتا رہوں،آپ بھی پڑھیے اور حظ اٹھائیے۔
ثابت کیا اے شاہِ عرب! تیری روش نے
کاسہ مرا بہتر ہے ترے ساغرِ جم سے
یہ ارضِ مقدس ہے مسلماں کی امانت
ان دَیر نشینوں کو نکلواؤ حرم سے

سعید الرحمن سعدی 16 دسمبر, 2017 - 17:57

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورۂ اسرائیل کے تناظر میں(جیسا کہ میں سمجھا ہوں اورقوی امید ہے کہ شاعر کی مراد بھی یہی ہوگی)”القدس گیا ہے جو سعودی کے قدم سے”؛ یہ مصرعہ بہت برمحل اور جاندار ہے،تاہم بادی النظر میں اس کا مفہوم کچھ اور بھی ہوسکتاہے،اور درج بالا مفہوم تک رسائی میں عام ذہن کو دیر اور دشواری بھی ہوسکتی ہے۔
چونکہ اس زمانے میں ایک بہترین شعر وہی سمجھا جاتاہے جو سہل الفہم ہو،اور اس میں دماغ کو کسی قسم کی ورزش کا سامنا نہ کرنا پڑے،اس لیے میرا ماننا ہے کہ موجودہ ادب میں اس کی رعایت ضرور ہونی چاہیے

Leave a Comment