اعظم سیتاپوری
بڑا بد نصیب چمن ہوں میں جسے باغ باں نے مٹا دیا
مری بلبلوں کو اڑا دیا، مری شاخوں کو بھی جلا دیا
وہ کہاں سے لاؤں زبان میں، غمِ دل مرا جو بیاں کرے
مرے پھولوں کو بھی مسل دیا مری خوشبؤں کو لُٹا دیا
اطفال شام
کیا خطا ہوئی یہ سزا ملی، ہمیں گولیوں سے اڑا دیا
تو بتا مجھے مرے حکمراں، کیوں لہو ہمارا بہا دیا
مرے ابّو جی بھی بلک پڑے دِکھی لاش جب مری منتشر
مری ماں نے دل کو نچوڑ کر، مجھے آنسؤں سے دھلا دیا
افسردہ باپ
اے پیارے لختِ جگر مرے ترا حال کیا یہ بنا دیا
تجھے چھین کر مری گود سے یہ کہاں تجھے ہے سلا دیا
ترا خون میں یہ سَنا بدن مری آرزو کا ہی خون ہے
ترے قاتلوں نے غموں کا دل پہ مرے ہے زخم لگا دیا
غمزدہ ماں
کلی نا شگفتہ کے مثل تھا، مرا دل جگر یہ کلیجہ تھا
تھا کھلونوں سے ابھی کھیلتا کیوں خاک میں ہی ملا دیا
کسے سینے سے میں لگاؤں گی، کسے لوریاں میں سناؤں گی
وہیں قبر میں مرے لعل کی مجھے کیوں نہ تم نے لِٹا دیا
غافل حکمران
مجھے کیا خبر کہ ہوا ہے کیا، مرے ساتھ میرے امور ہیں
کہیں اور جا کے سوال کر، ہے سلیقہ کچھ کہ بھلا دیا
مری سلطنت مری زندگی مرا عیش ہے مری بندگی
میں خموش ہوں یہی حکم ہے، مرے آقا نے ہے سنا دیا
ملک شام
previous post