Home تجزیہ مغربی بنگال:این آر سی کی سَنگھی تدبیریں الٹی ثابت ہوئیں

مغربی بنگال:این آر سی کی سَنگھی تدبیریں الٹی ثابت ہوئیں

by قندیل

عبدالعزیز
مغربی بنگال میں اسمبلی کے تین حلقوں کے ضمنی انتخابات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ محترمہ ممتا بنرجی کو اب بھی بنگال کے لوگ پسند کرتے ہیں اور ان کی قیادت و سیادت پر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ بی جے پی گزشتہ کئی سال سے مغربی بنگال میں ہر قسم کے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر الیکشن میں اس کی ساری عوام دشمن تدبیریں کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔ ’این آر سی‘ کا ہوا مودی -امیت شاہ کی جوڑی نے ایسا کھڑا کیا ہے کہ پورے ملک میں بھونچال سا آگیا ہے۔ جو خاندان صدیوں سے ہندستان میں رہتا آیا ہے وہ بھی پریشان حال ہے اور جو چند لوگ عارضی طور پر سرحد پار کرکے آئے ہیں جن کی تعداد نہیں کے برابر ہے وہ بھی پریشان ہیں۔ جہاں انتخابات کا اعلان ہوتا ہے وہاں این آر سی کے سلسلے میں امیت شاہ کی بیان بازی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ مغربی بنگال چونکہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے نشانے پر ہے۔ یہاں امیت شاہ وقتاً فوقتاً آتے رہتے ہیں اور انسان دشمن بیانات دیتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انھوں نے کلکتہ میں بیان دیا تھا کہ شہریت کا نظرثانی بل جلد پاس کرالیا جائے گا، اس کے تحت ہندوؤں کو خواہ وہ یہاں کے شہری ہوں یا نہ ہوں انھیں شہریت دی جائے گی۔ سبھی ذاتوں کا نام لیا تھا سوائے مسلمان کے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کو شہریت کے معاملے میں پریشان کیا جائے گا۔ اس بیان سے ہندو/ مسلم کی تقسیم مقصود تھا۔ اس پولرائزیشن سے اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں وہ فائدہ اٹھانا چاہتے تھے لیکن مغربی بنگال کے عوام ان کی سیاسی چال اچھی طرح بھانپ گئے تھے جس کی وجہ سے ان کی چال میں نہیں آئے۔
اس کے برعکس ممتا بنرجی نے ’این آر سی‘ کی سخت مخالفت کی اور ببانگ دہل کہا کہ وہ کسی حال میں بھی مغربی بنگال میں این آر سی لاگو ہونے نہیں دیں گی۔ ممتا بنرجی عوام کو سمجھانے اور بھروسہ دلانے میں کامیاب ہوئیں۔ بی جے پی عوام کو دھوکہ دینے میں بری طرح ناکام ہوئی۔ کریم پور، کھڑگپور صدر، کالیا گنج تینوں اسمبلی حلقوں سے ترنمول کانگریس کو کامیابی حاصل ہوئی۔ بی جے پی کو لوک سبھا کے الیکشن کے مقابلے میں ووٹ بھی کم ملے۔ ٹی ایم سی کا ووٹ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھا ہے۔ممتا بنرجی نے صحیح کہا ہے کہ بی جے پی کا غرور اور گھمنڈ بہت بڑھ گیا تھا جس کی وجہ سے اسے منہ کی کھانی پڑی۔ بی جے پی کے اندر بھی ضمنی انتخابات کی شکست سے چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ بی جے پی کے ریاستی نائب صدر چندر کمار بوس نے کہا ہے کہ ”بی جے پی کے این آر سی کی پالیسی ناکام ثابت ہوئی۔ شہریت کی نظرثانی کا بل پاس کرانے پر بھی مغربی بنگال کے عوام نے بی جے پی پر بھروسہ نہیں کیا۔ اس لئے ضروری ہے کہ این آر سی کو الیکشن میں موضوع بحث نہیں بنایا جائے۔ اسے موضوع بحث بناکر بی جے پی نے اپنا ہی نقصان کیا ہے۔ مسٹر بوس نے کہاکہ ممتا بنرجی نے این آر سی کے مسئلے کو نہایت عقلمندی اور دانش مندی سے استعمال کیا، جس کی وجہ سے این آر سی اور سی اے بی (Citizen Amendment Bill) کا مسئلہ اٹھاکر بی جے پی نے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا بلکہ الیکشن میں اس کو نقصان اٹھانا پڑا“۔ مسٹر بوس کے بیان سے بی جے پی کے ریاستی لیڈران خوش نہیں ہیں۔ ان کا حوصلہ بھی پہلے جیسا نہیں ہے۔ مغربی بنگال کیلئے جو سوچنے اور غور و فکر کرنے کی بات ہے وہ یہ ہے کہ کانگریس اور سی پی ایم کا اتحاد تیسرے نمبر پر رہا۔ بی جے پی اب بھی دوسرے نمبر پر ہے۔ اس لحاظ سے مغربی بنگال کی سیاست کیلئے تشویش کی بات ہے۔ اگرچہ اتحاد کے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مستقبل میں اتحاد کی طاقت بڑھے گی فی الحال اتحاد کا کام شروع ہوا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ لوگ کانگریس یا سی پی ایم پر بھروسہ نہیں کررہے ہیں۔
محترمہ ممتا بنرجی کے اندر ہمت اور حوصلہ ہے اور وہ لڑنے بھڑنے پر یقین رکھتی ہیں۔ سترہ سال کی مسلسل لڑائی سے انھوں نے کمیونسٹوں کے سرخ قلعے کو مسمار کردیا۔ اب ان کی لڑائی بھاجپا اور آر ایس ایس سے ہے۔ یہ لڑائی ایک لحاظ سے پہلے سے کہیں زیادہ مشکل اور خطرناک ہے۔ بایاں بازو کے لوگ جمہوریت پر کچھ نہ کچھ یقین کرتے تھے اور وہ کسی نہ کسی اصول و ضابطے کا لحاظ رکھتے تھے۔ مرکز میں ان کی حکومت بھی نہیں تھی۔ منی پاور بھی نہیں تھا۔ اس کے برخلاف سنگھ پریوار والے جمہوریت یا سیکولرزم پر یقین نہیں رکھتے۔ فرقہ پرستی اور ہندو مسلمان کی تقسیم ان کا خاص ایجنڈا ہوتا ہے۔ آر ایس ایس مغربی بنگال میں گاؤں گاؤں میں اپنی شاکھاؤں کے ذریعے فرقہ پرستی بڑھانے کا کام کر رہا ہے۔ بی جے پی کی مرکز میں حکومت ہے اور ان کے پاس دولت کی ریل پیل ہے جس کی وجہ سے ایم ایل اے، ایم پی یا سیاست دانوں کو خریدنا ان کیلئے آسان ہے۔ اس لحاظ سے ممتا بنرجی کی لڑائی پہلے کے مقابلے میں سخت ہے۔
ممتا بنرجی کیلئے جو مثبت پہلو ہے وہ یہ ہے کہ ریاست میں ان کی حکومت ہے اور سیاسی حکمت عملی کیلئے پرشانت کشور جیسی شخصیت ان کی معاونت کیلئے دستیاب ہے۔ ممتا بنرجی کی جو سب سے بڑی کمی اور خامی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی پارٹی میں اندرونی جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ کسی کا مشورہ قبول نہیں کرتیں، لیکن اب پرشانت کشور کے مشورے کو انھیں قبول کرنا پڑرہا ہے جس کی وجہ سے پارٹی کو فائدہ ہورہا ہے اور لوگوں کے مسائل بھی ایک حد تک حل ہورہے ہیں۔ ترنمول کے لیڈروں کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی میں بھی کمی کے آثار نظر آرہے ہیں۔ اگر ممتا بنرجی اسی روش پر قائم رہیں اور عوام کی طرف ان کی توجہ مبذول رہی، ان کے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی لیتی رہیں تو 2021ء کے اسمبلی انتخابات میں بھی وہ کامیاب ہوسکتی ہیں۔ سی پی ایم اور کانگریس کا جو محاذ یا اتحاد ہے اس کے لڑنے کا جو رخ ہے وہ یہ ہے کہ وہ بی جے پی اور ترنمول کانگریس سے یکساں طور پر پنجہ آزمائی کرنا چاہتا ہے۔ اگر یہ سیاسی محاذ بی جے پی کو ترنمول کانگریس سے زیادہ ٹارگیٹ بنائے تو اس محاذ کیلئے زیادہ فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ ممتا بنرجی میں تمام کمیوں اور خامیوں کے باوجود تو فی الحال یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ بی جے پی کے سخت خلاف ہے اور فرقہ پرست نہیں ہیں۔ جہاں تک سی پی ایم اور کانگریس کو اکھاڑ پھینکنے اور نیست و نابود کرنے کی بات ہے وہ ممتا بنرجی میں ضرور ہے جو ایک جمہوری ملک کیلئے کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے کہ اپوزیشن کو حکمراں جماعت روند ڈالے یا کچل کر نیست و نابود کردے۔ بی جے پی کا بھی یہی نعرہ ہے کہ وہ ’اپوزیشن مکت بھارت‘ یا ’کانگریس مکت بھارت‘ چاہتی ہے۔ اس کا خفیہ ایجنڈا ’مسلم مکت بھارت‘ بھی ہے۔
ممتا بنرجی کیلئے ضروری ہے کہ وہ محاذ کو زیادہ نشانہ بنانے کے بجائے بی جے پی کو نشانہ بنائیں۔ یہی چیز ان کیلئے کارآمد ثابت ہوگی۔ مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ ان کے اندر کا کوئی فرد یا جماعت فرقہ پرستی کا مقابلہ فرقہ پرستی سے کرنے کی ہرگز کوشش نہ کرے۔ بی جے پی کی تمنا اور خواہش ہوتی ہے کہ مسلمانوں میں سے کوئی جماعت مسلم فرقہ پرستی کو بڑھاوا دے تاکہ ہندو فرقہ پرستی بھی بڑھے اور بی جے پی کو فائدہ ہو۔ مجلس اتحاد المسلمین کی جو سیاست ہے وہ سیکولر نہیں ہے اور نہ ہی سب کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی حکمت عملی ہے۔ مہاراشٹر میں اتحاد المسلمین کی وجہ سے کانگریس کو 25 سیٹوں پر نقصان اٹھانا پڑا اور بی جے پی کو پچیس سیٹوں کا فائدہ ہوا۔ ریپبلکن پارٹی سے اتحاد المسلمین کا اتحاد تھا وہ اتحاد بھی قائم نہیں رہا۔ اس پارٹی نے بھی 15 سیٹوں پر اثر ڈالا۔ اس طرح اگر ریپبلکن پارٹی کانگریس کے ساتھ مل کر لڑتی تو کانگریس کی 44 سیٹوں کے بجائے 84 سیٹیں حاصل ہوتیں۔ بی جے پی کو جو مہاراشٹر میں مات ہوئی ہے وہ تین پارٹیوں کے اتحاد سے ہوئی ہے۔ اتحاد المسلمین کو دو یا تین سیٹوں پر کامیابی ملی ہے۔ ظاہر ہے دو تین سیٹوں سے بی جے پی کو شکست دینے کی بات سوچنا بھی غلط ہے۔ اس لئے مسلم جماعت چاہے کوئی بھی ہو اسے وسیع پیمانے پر اور ملک گیر پیمانے پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ چند سیٹوں سے مسلمانوں کا بھلا ہونے والا نہیں ہے۔ اگر مسلمانوں کی کوئی بھی جماعت معاہداتی سیاست پر عمل کرتی ہے اور کسی سیکولر جماعت سے معاہدہ کرتی ہے تو مسلمانوں کا بھلا ہوسکتا ہے اور فرقہ پرستی کو بھی زک دینے کی کوشش بھی کی جاسکتی ہے۔
E-mail: [email protected]
Mob:9831439068

You may also like

Leave a Comment