Home تجزیہ معصوموں کےلہومیں غوطہ زن "غوطہ "

معصوموں کےلہومیں غوطہ زن "غوطہ "

by قندیل

اعظم سیتاپوری
ہائے ہمارے پیارے ننھے منے بچو! ہم میدان حشر میں تم کو کیسے منھ دکھائیں گے، تم نے قوم کو جگانے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے وہ فریضہ ادا کردیا جو تم پر نہیں؛ بل کہ ہم بڑوں پر عائد ہوتا تھا،مگر افسوس کہ تمہاری معصوم جانوں کا نذرانہ بھی ہم کو بیدار نہ کر سکا، ہم آج بھی اپنی پر تعیش زندگی سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، وہ دن دور نہیں، جب خدا نخواستہ دوسرے ممالک میں بھی یہ احوال پیش آئیں گے اور قربانی کے جانور کی طرح ہم اپنے کو ذبح کرانے کے لیے دشمن کے حوالے کرتے رہیں گے، اگر زندگی کی بھیک مانگیں گے بھی اور انصاف کی درخواست کریں گے بھی تو اقوام متحدہ جیسے اداروں سے، جو انسانی حقوق کا علم بردار ادارہ نہیں؛ بل کہ عالمی سطح پر تعصب پھیلانے والا ادارہ ہے جہاں انسانیت کی بنیاد پر نہیں؛ بل کہ نسل اور مذہب کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں، اس کے نزدیک ہماری جانوں کی قیمت گدھے اور خچر سے زیادہ نہیں، شام و فلسطین و برما ہم شرمندہ ہیں اور اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں، معصوموں کا خون رنگ لایا کرتا تھا لیکن ابھی اس کے آثار نظر نہیں آ رہے، لگتا ہے ابھی اس سے کہیں زیادہ جانوں کا اتلاف ہوگا، بل کہ اب ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ اللہ کی طرف سے چھٹائی شروع ہو چکی ہے،اب جینے کا حق اسی کو ملے گا جو اصلی ہوگا اور پھر اس کے بعد انقلاب آئے گا، یہ باتیں اس لیے کہی جا رہی ہیں کہ اللہ رب العزت قوموں کے حالات اس وقت تک نہیں بدلتا،جب تک وہ خود نہ بدلنا چاہیں اور یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہم اپنے آپ کو بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے ہیں ہمارے حکمران بھی غافل، عوام بھی، یہاں تک خواص بھی، کتنے دل ایسے ہیں جو امت کا درد محسوس کرتے ہوں گے اور کتنی آنکھیں ہیں جو معصوموں کی قربانی پر نم ہوئی ہوں گی اور کتنے ہاتھوں نے اپنا فریضہ انجام دیا ہوگا یا کم سے کم دعا ہی کے لیے اٹھے ہوں گے؟؟؟؟
ابھی حلب اور میانمار کی قربانیاں ذہن سے محو نہیں ہو پائی تھیں، ان کے خون کے فوارے ڈراؤنی شکل میں نظروں کے سامنے گھوم رہے تھے، زخمیوں کی دل دہلا دینے والی چیخیں اور آہیں سماعتوں میں صدائے باز گشت کی طرح گونج رہی تھیں کہ غوطہ کے خون چکاں واقعات پیش آ گئے، جنہوں نے غیرت اسلامی رکھنے والوں اور امت کو فرد واحد سمجھنے والوں کو درد میں مبتلا کر کے اشک بار کردیا؛ مگر ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے،ہمارا حکمران طبقہ بالکل بے غیرت ہو چکا ہے وہ اپنی عیش پرستی، اپنی حکومت اور اپنے ذاتی احوال و مفادات کے حصار میں ایسا مقید ہے کہ اس کو نہ تو امت کی ماؤں اور بہنوں کی آسمان کا کلیجہ چیر دینے والی چیخیں سنائی دیتی ہیں اور نہ ہی معصوموں کا بہنے والا خون اس کی رگ حمیت پھڑکاتا ہے، کہاں گئے وہ حکمران جن کی آغوش تربیت میں ابن زیاد اور ابن قاسم جیسے نوجوان سپہ سالار پلے اور بڑھے تھے؟ کہاں ہیں وہ مائیں جنہوں نے ایسے جیالوں کو جنم دیا تھا، جنہوں نے ظلم کی سیاہ بساط الٹ کر رکھ دی تھی؟ کہاں ہیں وہ اہل دانش جن کی صحبت سے زنگی، ایوبی اور سیف الدین قطز جیسے جرنیل تیار ہوئے تھے؟ کہاں ہیں وہ تزکیہ گاہیں جنہوں نے سید احمد اور شاہ اسماعیل کو مزکی کیا تھا؟ کہاں ہیں وہ دانش گاہیں جنہوں نے شیخ الہند، مدنی، سندھی اور سیوہاروی کو زیور علم سے آراستہ کیا تھا؟ کیا ظلم و ستم کے پنجہء استبداد سے امت کبھی چھوٹ پائے گی؟
ہمارے آپسی جھگڑوں نے ہماری ہوا اکھاڑ دی، دنیا کی محبت اور موت سے نفرت نے ہم کو خس و خاشاک کی طرح بے وقعت کر دیا، ہم نے قرآن کریم جس نے قوموں کو عزت بخشی، سے دوری بنا لی، تو آج ہم اپنی پستی اپنے آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ـ
حقوق انسانی کا شور و غل کرنے والا ٹولہ بھی خاموش ہے جو انگلستان یا اس کے پیرو کاروں کے ایک خون پر چیخ چیخ کر دنیا کے گوشے گوشے میں اپنی آواز پہنچا دیتا ہے، آج وہ بھی تماشائی ہےـ
اے مردہ قوم کے لاڈلو! تم تو دنیا کی آزمائشوں اور اس کی ستم ظریفیوں سے نجات پاکر راہی جنت ہوئے، تم نے شہادت کی عظیم نعمت حاصل کر لی، کاش تمہاری قربانی اس عظیم نعمت کے حصول کا جذبہ امت کے جیالوں کے سینوں میں بیدار کر دےـ

You may also like

Leave a Comment