زینب آفتاب
شعبہ سنی دینیات
اے ایم یو
جس طرح کسی مرض کا ماہر ڈاکٹر ہی اس کا علاج کر سکتا ہے اسی طرح انسانیت کا ماہر، اس کا خالق ہی اس کے بارے میں زیادہ جانتا ہے کہ اس کے لئے صحیح طریقے سے زندگی گزارنے کے لیے کیا نظام ہونا چاہیے، جب بھی کسی قوم نے خدائی نظام کی خلاف ورزی کی اس نے ذلت اٹھائی
آج اس 8 سالہ بچی آصفہ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس کو سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن اس کے مرتکبین کو ذرا کھٹک بھی نہ ہوئی کہ انہوں نے کیا کیا ہے، یہ صرف کسی کی ہوس تو نہیں ہو سکتی ہے اور نہ کسی کی خواہشات کی تسکین، بلکہ دوسروں کو پریشان کرنے والی خوشی ہی اس کی وجہ ہو سکتی ہے یا پھر یہ بھی کہ وہ معصوم پھول جیسی بچی محض *مسلمان* تھی،
خیر جو بھی اسکی وجہ رہی ہو کیا اسکی اتنی بڑی سزا اس کے لئے مناسب ہے؟ ہم اس ملک میں ہیں جہاں کی حکومت ہی سے اسکی جنتا محفوظ نہیں ہے پھر وہی دور آگیا ہے جہاں بیٹی کی پیدائش سے لوگ ڈرتے تھے اور انہیں پیدا ہوتے ہی مار دیتے تھے، کیا اب بھی اس دور میں بیٹی کو مارا نہ جائے تو کیا کیا جائے جہاں بیٹی محفوظ ہی نہیں ہے جہاں ہر وقت ماں باپ کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ انکی پھول جیسی بیٹی کسی بھی وقت درندوں کا شکار ہو سکتی ہے ، تو آگا وہ دور جہاں پھر بیٹی کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جاتا ہے!!!
مسلمانو! اب بھی بیدار ہو جاؤ اپنے مذہب کے لیے خاموش رہ کر دیکھو تم نے قوم کو کس حالت پر لا کھڑا کر دیا ہے اب تو متحد ہو جاؤ اور متحد ہو کے اپنے مذہب کو بچاؤ، مذہب کو بچانے کے لیے پہلے خود مذہب پر عمل کرو !!
معصوموں سے درندگی کب تک؟
previous post