نام کتاب: مہرباں کیسے کیسے
(مشاہیر کے خطوط بنام اختر شاہجہاں پوری)
ناشر و مرتب: مدہوش بلگرامی
صفحات: 304
سن اشاعت: 2016
قیمت: 300/-
(مشاہیر کے خطوط بنام اختر شاہجہاں پوری)
ناشر و مرتب: مدہوش بلگرامی
صفحات: 304
سن اشاعت: 2016
قیمت: 300/-
ملنے کا پتا: دہلی اور ممبئی کے اہم کتب خانے

مبصر: عمران عاکف خان
259،تاپتی ہاسٹل،جواہر لال نہرویونیورسٹی،نئی دہلی۔110067
ہمارے ادب نگاروں نے ادب نگاری میں متعدد تجربے اور طریقے ایجاد کیے ہیں ۔اسے نئے نئے زاویوں اور نظریوں سے پرکھا ہے۔اسے چھانا اور پھٹکا ہے۔ان سب کوششوں کو مقصد صرف یہی تھا کہ ادب کو جتنا ممکن ہو سکے عام فہم اور عام آدمی کی دسترس تک لایا جائے۔چوں کہ ادب انسانوں کے ذریعے انسانوں کے لیے ہی لکھا جاتا ہے۔ مگر کبھی کبھی یا اکثر ایسی تعبیرات اور صورت حال درپیش ہوجاتی ہے کہ بات سمجھ میں نہیں آتی ،یا سمجھنا کچھ ہوتا ہے اور سمجھ میں کچھ آجاتا ہے۔اسی غلط فہمی اور عام مغالطے سے عام آدمی کو بچانے کے لیے یہ طریقے اختیار/ایجاد کیے جاتے ہیں ۔ عام آدمی ،عام قاری بھی ہوسکتا ہے اور خاص قاری بھی ۔جس کا مقصد صرف اور صرف یہی کہ وہ ادب کا مطالعہ کرے اور اپنے ذہن و دل کی تشنگی کا سامان کرے۔ادب نگاروں نے/فن کاروں نے اردو ادب میں تجربہ کاری کی ابتدا ناول سے کی،اس کے بعد افسانہ آیا ،پھر خاکہ،اس کے بعد تو جیسے اس لڑی میں دانے بھر تے ہی چلے گئے اور سفرناموں،رپورتاژ،روداد نگاری،خطوط نگاری،واقائع طرازی ،کتنے ہی عنوان تھے جو چمنستان ادب میں ایک صحت مند اور پر جوش و خوشگوار تبدیلی کے ساتھ آئے۔اردو قارئین و شائقین نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کے تخلیق کاروں کو ان کے فن اور فکرکی بھر پور داددی———-اور اس طرح سے ادب فروغ پاتا رہا۔
زیر مطالعہ کتاب’مہرباں کیسے کیسے(مشاہیر کے خطوط بنام اختر شاہجہاں پوری)‘اسی قبیل کی ایک کتاب ہے جو خطوط کا مجموعہ ہے۔یہ خط/نامے وہ ہیں جو اختر ؔ شاہ جہاں پوری کے نام تقریباً 48مشاہیر ادب نے تحریر کیے ہیں ۔ان میں رشید حسن خاں،ڈاکٹر /پروفیسر قمر رئیس،احمد ندیم قاسمی،ڈاکٹر وزیر آغا،مجروح سلطان پوری، رام لعل،بیکل اتساہی،بشیر بدر،کرشن کمار طور،نذیر فتح پوری،وقار مانوی،ڈاکٹر ظفر مرادآبادی،عشرت ظفرؔ ،ظفر اقبال وغیرہ نمایاں طور پر قابل ذکر ہیں ۔خطوط کے اس مجموعے کو مدہوش بلگرامی نے مرتب کیا ہے ۔اس سے پہلے کہ میں کتاب کی ترتیب و تزئین اور دیگر نکات پر بات کروں،مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نامہ،خطوط اور مکتوب نگاری کی اہمیت و افادیت کے متعلق ڈاکٹر /پروفیسر قمر رئیس کی قابل ذکر گفتگو رقم کروں ۔آپ لکھتے ہیں:
’’……ایک عالم نے مکتوب نگاری کو دل و دماغ کی نماز کہا ہے ۔شاید اس لیے کہ خط لکھتے ہوئے مکتوب نگار پورے انہماک سے مکتوب الیہ کو حاضرو ناظر جانتا ہے ۔اس سے مخاطب ہوتا ہے،اس سے کلام کرتا ہے اوروہ بھی نہایت بے ساختگی،بے تکلفی ،آزادی سے اور اعتمادمیں لے کر جیسے عاشق تنہائی میں اپنی محبوبہ سے محو گفتگو ہوتا ہے ۔ادب کی تاریخ بتا تی ہے کہ کبھی کبھی اہل قلم کے خطوط ان کی دوسری تصانیف سے زیادہ اور ادبی وزن و وقار حاصل کرلیتے ہیں۔غالب نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ وہ جس طرح انیسویں صدی کے سب سے باکمال شاعر ہیں اسی طرح اپنے مکاتیب کی وجہ سے اس صدی کے سب سے بڑے نثر نگار بھی کہلائیں گے۔مولانا ابو الکلام کے جو خطوط’’غبار خاطر‘‘ کے نام سے شائع ہوئے ،ان کی دوسری علمی تصانیف سے کہیں زیادہ ان کی شہرت کا سبب ہیں۔‘‘(اسی کتاب سے۔ص:9)
پرو فیسر قمر رئیس کی مذکورہ گفتگو سے جہاں خطوط اور خطوط نگار ی کی اہمیت و افادیت کا پتا چلتا ہے وہیں اس نکتے کا علم بھی ہوتا ہے کہ خطوط نگاری اور خطوط جب کتابی صورت میں ترتیب و تہذیب کے دھاگوں سے بندھتے ہیں تو انھیں کسی مصنف و مولف کی دیگر تصانیف و تالیفات سے بھی بلند مقام حاصل ہوجاتا ہے۔اس کے لیے انھوں نے غالب اور مولانا آزاد کی مثالیں بھی پیش کیں۔حقیقت میں ایسا ہے بھی۔آج اردو ادب کا ہر طالب علم ’’غبار خاطر‘‘کے متعلق جانتا ہے مگر اسے’’ تذکرہ‘‘ اور’’ فاتحۃ‘‘ الکتاب کے متعلق علم نہیں حالاں کہ یہ دونوں کتابیں بھی مولانا آزاد کی معرکۃ الآرا کتب میں شمار ہوتی ہیں اور علمی دنیا کا ایک بڑا طبقہ ان کا حرف شناس ہے۔
دوسری بات جو خطوط نگاری کی ابتدا اور اس کے مقا صداور اچیومنٹس کے تعلق سے میں مدہوش بلگرامی کے الفاظ میں رقم کرنا چاہوں گا۔وہ لکھتے ہیں:
’’مکتوب نگاری کو گفت و شنیید کے وسیلے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔اس کی ابتدا کب ہوئی ،یہ بتانا مشکل ہے مگر گمان لگایا جاسکتا ہے کہ جب انسان کو عقل و شعور اور زبان جیسی نعمتوں سے نوازا گیا جس کے ذریعہ وہ اپنے جذبات و خیالات کا اظہار بآسانی کرسکے۔اسی وسیلۂ اظہار کو ہمارے معاشرے میں باہمی گفتگو کا نام دیا گیا ہے ۔باہمی گفتگو نہ ہونے پر تحریری گفتگو کو اپنایا گیا۔یہی تحریر ی گفتگو مکتوب نگاری ہے۔‘‘(اسی کتاب سے۔ص:28)
مذکورہ بالا گفتگوسے مکتوب نگاری کی ضرورت اور ابتدائی ہیولے کے بارے میں پتا چلتا ہے نیز یہ بھی کہ مکتوب نگاری باہمی رابطوں اور رشتوں کی استواری میں کتنی اہم رسم ہے۔304صفحات پر مشتمل یہ کتاب اپنے عنوان اور اپنی صنف کے اعتبار سے قابل مطالعہ اور لائق ستایش ہے۔مدہوش بلگرامی نے جہاں اس کتاب کی تزئین و تہذیب میں دیگر ضروری امور کا خیال رکھا ہے وہیں ان کا یہ کارنامہ تو خصوصی طور پر تعریف کے قابل ہے کہ انھوں نے ٹائپ شدہ خط کے بعد خط کا اصل عکس بھی شامل کر دیا۔یہ ان کی محنت اور جاں فشانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔کتاب کا سرورق جو مسعود التمش کے ذہن کی اختراع ہے،بہت خوب ہے۔ایک کھلی کتاب ہے اور اس کے درمیان سے سفید دھووؤں کا مرغولہ لہراتا ہوا بلند ہورہا ہے۔گویا یہ خطوط اور ان کا غبار ہے۔یا وہ خوشبو جو مکتوب نگار ۔مکتوب۔کے ذریعے مکتوب الیہ تک پہنچانا چاہتا ہے۔کمال تو یہ ہے کہ یہ خوش بو بغیر کہیں بکھرے یا کھوئے ،اپنے اصل مقام تک پہنچ بھی جاتی ہے۔پس ورق پر معروف مصنف اختر شاہ جہاں پوری کی تصویراور انیس امروہوی کا مختصر تعارف نامہ ہے۔جس سے کتاب ،مافیہ الکتاب سب کچھ ایک نظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
کتاب کے نفس مضمون سے پہلے ڈاکٹر /پروفیسر قمر رئیس ،ڈاکٹر اطہر مسعود خاں،خالد علوی اور مدہوش بلگرامی کے وقیع ،افادی اور قابل مطالعہ مضامین شامل ہیں ۔جن سے کتاب کی اہمیت اور حیثیت دوبالا ہوگئی۔بہتر ین کاغذ،معیاری طباعت اور رچنا کار پروڈکشنز ،لکشمی نگرکی جاذب نظر کمپیوزنگ کے ساتھ تخلیق کار پبلشرز لکشمی نگر،دہلی کی یہ پیش کش ایک شاندار پیش کش ہے۔امید ہے کہ اردو قارئین و شائقین کے حلقوں میں اسے خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوگی اور مرتب کی محنت ٹھکانے لگے گی۔
259،تاپتی ہاسٹل،جواہر لال نہرویونیورسٹی،نئی دہلی۔110067
ہمارے ادب نگاروں نے ادب نگاری میں متعدد تجربے اور طریقے ایجاد کیے ہیں ۔اسے نئے نئے زاویوں اور نظریوں سے پرکھا ہے۔اسے چھانا اور پھٹکا ہے۔ان سب کوششوں کو مقصد صرف یہی تھا کہ ادب کو جتنا ممکن ہو سکے عام فہم اور عام آدمی کی دسترس تک لایا جائے۔چوں کہ ادب انسانوں کے ذریعے انسانوں کے لیے ہی لکھا جاتا ہے۔ مگر کبھی کبھی یا اکثر ایسی تعبیرات اور صورت حال درپیش ہوجاتی ہے کہ بات سمجھ میں نہیں آتی ،یا سمجھنا کچھ ہوتا ہے اور سمجھ میں کچھ آجاتا ہے۔اسی غلط فہمی اور عام مغالطے سے عام آدمی کو بچانے کے لیے یہ طریقے اختیار/ایجاد کیے جاتے ہیں ۔ عام آدمی ،عام قاری بھی ہوسکتا ہے اور خاص قاری بھی ۔جس کا مقصد صرف اور صرف یہی کہ وہ ادب کا مطالعہ کرے اور اپنے ذہن و دل کی تشنگی کا سامان کرے۔ادب نگاروں نے/فن کاروں نے اردو ادب میں تجربہ کاری کی ابتدا ناول سے کی،اس کے بعد افسانہ آیا ،پھر خاکہ،اس کے بعد تو جیسے اس لڑی میں دانے بھر تے ہی چلے گئے اور سفرناموں،رپورتاژ،روداد نگاری،خطوط نگاری،واقائع طرازی ،کتنے ہی عنوان تھے جو چمنستان ادب میں ایک صحت مند اور پر جوش و خوشگوار تبدیلی کے ساتھ آئے۔اردو قارئین و شائقین نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کے تخلیق کاروں کو ان کے فن اور فکرکی بھر پور داددی———-اور اس طرح سے ادب فروغ پاتا رہا۔
زیر مطالعہ کتاب’مہرباں کیسے کیسے(مشاہیر کے خطوط بنام اختر شاہجہاں پوری)‘اسی قبیل کی ایک کتاب ہے جو خطوط کا مجموعہ ہے۔یہ خط/نامے وہ ہیں جو اختر ؔ شاہ جہاں پوری کے نام تقریباً 48مشاہیر ادب نے تحریر کیے ہیں ۔ان میں رشید حسن خاں،ڈاکٹر /پروفیسر قمر رئیس،احمد ندیم قاسمی،ڈاکٹر وزیر آغا،مجروح سلطان پوری، رام لعل،بیکل اتساہی،بشیر بدر،کرشن کمار طور،نذیر فتح پوری،وقار مانوی،ڈاکٹر ظفر مرادآبادی،عشرت ظفرؔ ،ظفر اقبال وغیرہ نمایاں طور پر قابل ذکر ہیں ۔خطوط کے اس مجموعے کو مدہوش بلگرامی نے مرتب کیا ہے ۔اس سے پہلے کہ میں کتاب کی ترتیب و تزئین اور دیگر نکات پر بات کروں،مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نامہ،خطوط اور مکتوب نگاری کی اہمیت و افادیت کے متعلق ڈاکٹر /پروفیسر قمر رئیس کی قابل ذکر گفتگو رقم کروں ۔آپ لکھتے ہیں:
’’……ایک عالم نے مکتوب نگاری کو دل و دماغ کی نماز کہا ہے ۔شاید اس لیے کہ خط لکھتے ہوئے مکتوب نگار پورے انہماک سے مکتوب الیہ کو حاضرو ناظر جانتا ہے ۔اس سے مخاطب ہوتا ہے،اس سے کلام کرتا ہے اوروہ بھی نہایت بے ساختگی،بے تکلفی ،آزادی سے اور اعتمادمیں لے کر جیسے عاشق تنہائی میں اپنی محبوبہ سے محو گفتگو ہوتا ہے ۔ادب کی تاریخ بتا تی ہے کہ کبھی کبھی اہل قلم کے خطوط ان کی دوسری تصانیف سے زیادہ اور ادبی وزن و وقار حاصل کرلیتے ہیں۔غالب نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ وہ جس طرح انیسویں صدی کے سب سے باکمال شاعر ہیں اسی طرح اپنے مکاتیب کی وجہ سے اس صدی کے سب سے بڑے نثر نگار بھی کہلائیں گے۔مولانا ابو الکلام کے جو خطوط’’غبار خاطر‘‘ کے نام سے شائع ہوئے ،ان کی دوسری علمی تصانیف سے کہیں زیادہ ان کی شہرت کا سبب ہیں۔‘‘(اسی کتاب سے۔ص:9)
پرو فیسر قمر رئیس کی مذکورہ گفتگو سے جہاں خطوط اور خطوط نگار ی کی اہمیت و افادیت کا پتا چلتا ہے وہیں اس نکتے کا علم بھی ہوتا ہے کہ خطوط نگاری اور خطوط جب کتابی صورت میں ترتیب و تہذیب کے دھاگوں سے بندھتے ہیں تو انھیں کسی مصنف و مولف کی دیگر تصانیف و تالیفات سے بھی بلند مقام حاصل ہوجاتا ہے۔اس کے لیے انھوں نے غالب اور مولانا آزاد کی مثالیں بھی پیش کیں۔حقیقت میں ایسا ہے بھی۔آج اردو ادب کا ہر طالب علم ’’غبار خاطر‘‘کے متعلق جانتا ہے مگر اسے’’ تذکرہ‘‘ اور’’ فاتحۃ‘‘ الکتاب کے متعلق علم نہیں حالاں کہ یہ دونوں کتابیں بھی مولانا آزاد کی معرکۃ الآرا کتب میں شمار ہوتی ہیں اور علمی دنیا کا ایک بڑا طبقہ ان کا حرف شناس ہے۔
دوسری بات جو خطوط نگاری کی ابتدا اور اس کے مقا صداور اچیومنٹس کے تعلق سے میں مدہوش بلگرامی کے الفاظ میں رقم کرنا چاہوں گا۔وہ لکھتے ہیں:
’’مکتوب نگاری کو گفت و شنیید کے وسیلے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔اس کی ابتدا کب ہوئی ،یہ بتانا مشکل ہے مگر گمان لگایا جاسکتا ہے کہ جب انسان کو عقل و شعور اور زبان جیسی نعمتوں سے نوازا گیا جس کے ذریعہ وہ اپنے جذبات و خیالات کا اظہار بآسانی کرسکے۔اسی وسیلۂ اظہار کو ہمارے معاشرے میں باہمی گفتگو کا نام دیا گیا ہے ۔باہمی گفتگو نہ ہونے پر تحریری گفتگو کو اپنایا گیا۔یہی تحریر ی گفتگو مکتوب نگاری ہے۔‘‘(اسی کتاب سے۔ص:28)
مذکورہ بالا گفتگوسے مکتوب نگاری کی ضرورت اور ابتدائی ہیولے کے بارے میں پتا چلتا ہے نیز یہ بھی کہ مکتوب نگاری باہمی رابطوں اور رشتوں کی استواری میں کتنی اہم رسم ہے۔304صفحات پر مشتمل یہ کتاب اپنے عنوان اور اپنی صنف کے اعتبار سے قابل مطالعہ اور لائق ستایش ہے۔مدہوش بلگرامی نے جہاں اس کتاب کی تزئین و تہذیب میں دیگر ضروری امور کا خیال رکھا ہے وہیں ان کا یہ کارنامہ تو خصوصی طور پر تعریف کے قابل ہے کہ انھوں نے ٹائپ شدہ خط کے بعد خط کا اصل عکس بھی شامل کر دیا۔یہ ان کی محنت اور جاں فشانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔کتاب کا سرورق جو مسعود التمش کے ذہن کی اختراع ہے،بہت خوب ہے۔ایک کھلی کتاب ہے اور اس کے درمیان سے سفید دھووؤں کا مرغولہ لہراتا ہوا بلند ہورہا ہے۔گویا یہ خطوط اور ان کا غبار ہے۔یا وہ خوشبو جو مکتوب نگار ۔مکتوب۔کے ذریعے مکتوب الیہ تک پہنچانا چاہتا ہے۔کمال تو یہ ہے کہ یہ خوش بو بغیر کہیں بکھرے یا کھوئے ،اپنے اصل مقام تک پہنچ بھی جاتی ہے۔پس ورق پر معروف مصنف اختر شاہ جہاں پوری کی تصویراور انیس امروہوی کا مختصر تعارف نامہ ہے۔جس سے کتاب ،مافیہ الکتاب سب کچھ ایک نظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
کتاب کے نفس مضمون سے پہلے ڈاکٹر /پروفیسر قمر رئیس ،ڈاکٹر اطہر مسعود خاں،خالد علوی اور مدہوش بلگرامی کے وقیع ،افادی اور قابل مطالعہ مضامین شامل ہیں ۔جن سے کتاب کی اہمیت اور حیثیت دوبالا ہوگئی۔بہتر ین کاغذ،معیاری طباعت اور رچنا کار پروڈکشنز ،لکشمی نگرکی جاذب نظر کمپیوزنگ کے ساتھ تخلیق کار پبلشرز لکشمی نگر،دہلی کی یہ پیش کش ایک شاندار پیش کش ہے۔امید ہے کہ اردو قارئین و شائقین کے حلقوں میں اسے خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوگی اور مرتب کی محنت ٹھکانے لگے گی۔
عمران عاکف خان
+91-9911657591