ایسی شاعری پر تو سامعین ہوا میں کوٹ ہی لہرائیں گے اور سیٹوں پر بھنگڑہ کریں گے
عظیم اختر
جرائد میں شہر شہر، قریہ قریہ منعقد کیے جانے والے چھوٹے بڑے مشاعروں اور شعری نشستوں کی اسٹیریو ٹائپ، بے جان و بے رس رپورٹ کے ساتھ ٹکے ہوئے اشعار دیکھتے ہیں تو ہمیں پانچ چھ دہے قبل ریاست ویلی اور ماہنامہ شانِ ہند میں آنجہانی سرورؔ تونسوی اور کریم الاحسانی مظفر نگری کی اس زمانے میں دہلی میں منعقد کیے جانے والے مشاعروں کی رننگ کمینٹری یا روئداد بے ساختہ یاد آجاتی ہے۔ آنجہانی سرورؔ تونسوی گرچہ شاعر نہیں تھے لیکن شعر پر گہری نظر رکھتے تھے اور کمینڑی لکھتے ہوئے بڑے سے بڑے شاعر کے شعری سقم کو نظر انداز نہیں کرتے تھے۔ کریم الاحسانی مرحوم بذاتِ خود ایک اچھے شاعر تھے لیکن ان کے یہاں وہ پہنچ نہیں تھا جو آنجہانی سرور تونسوی کی تحریر کا خاصہ تھا۔وہ مشاعروں میں ہمہ تن گوش ہو کر ہر شاعر کا کلام سنتے، ضروری نوٹس لیتے، انہماک اور توجہ سے کلام سننے کی وجہ سے ایک اچھی اور ادبی رپورٹ جنم لیتی اور پڑھنے والے بھرپور لطف اٹھاتے ۔ اسٹیج پربیٹھے ہوئے شاعروں کے مابین باہمی نوک جھونک، جملہ بازی اور سامعین کی داد و بے داد کو بلا کم و کاست اس طرح لفظوں کا جامہ پہناتے کہ مشاعرہ کا منظر نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتا۔
پچاس ساٹھ سال پہلے کے مقابلے میں گرچہ آج اردو کا چلن بہت کم ہو گیا ہے، جس کو اردو کی کس مپرسی کا نام بھی دیا جا سکتا ہے، لیکن مشاعروں کی بہتات ہے۔ اس زمانے میں اردو دنیا میں عالمی مشاعروں کا کوئی تصور نہیں تھا۔کل ہند پیمانے کے مشاعرے بھی شاذ و نادر ہی ہوا کرتے تھے، لیکن یہ Ironyسے کم نہیں کہ اردو کی بے گھری اور بے دری نے ضلعی سطح سے لے کر عالمی سطح کے مشاعروں کو جنم دیا ہے جن کی بے رس اور بے جان خبریں رپورٹ کی شکل میں صفحات کا پیٹ بھرنے کے لیے آئے دن اخبارات میں چھپتی ہیں اور غیر معیاری، سطحی شعروں کی کہکشاں پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔ اچھے اور خوبصورت شعر کی نشاندہی سخن فہمی کے خداداد وصف کے بغیر ممکن نہیں، جس کا آج کے دور میں زبردست فقدان ہے۔ اس فقدان پر پردہ ڈالنے کے لیے منتظمینِ مشاعرہ مشاعرے کی اخباری رپورٹ تیار کرنے کے لیے مشاعرہ سے قبل مدعو شعراء سے ایک سادہ کاغذ پر مشاعرے میں پڑھنے والی غزل کا ایک ایک منتخبہ شعر لکھوا لیتے اور مشاعرے کے بعد سرکاری دفاتر کے بابوؤں کی طرح رپورٹ تیار کرتے ہوئے شعراء حضرات کے خود کے منتخب کردہ اشعار قارئین کی نذر کر دیتے ہیں تاکہ رپورٹ پڑھنے والے خود اندازہ لگالیں کہ اردو شاعری فکر کی کن بلندیوں کو چھو رہی ہے۔
اس وقت دلی اردو اکاڈمی کے ترجمان ایوانِ اردو کے تازہ شمارے میں مشاعرۂ جشنِ جمہوریت کے تعلق سے دو صفحات پر پھیلی ہوئی ایک ایسی ہی رپورٹ ہمارے سامنے ہے، جس میں مشاعرہ جشنِ جمہوریت کی مختصر تاریخ بیان کرتے ہوئے قارئین کی ضیافت کے لیے صرف وہی اشعار پیش کیے گئے ہیں جو شریکِ مشاعرہ شاعروں اور شاعرات نے خود منتخب کیے تھے۔ رپورٹ میں نمونے کے طورپر دیے گئے اشعار کے معیار نے ہمیں قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن معیار شاعری پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم اپنے قارئین کو بتا دیں کہ جشنِ جمہوریت کے مشاعرے میں اب مدعو کیے جانے والے شاعروں کو معمولی معاوضہ نہیں دیا جاتا بلکہ ہر شاعر کو پندرہ ہزار روپے نذرانے کے طورپر پیش کیے جاتے ہیں۔ اس نذرانے کے علاوہ ہر مقامی شاعر کو پندرہ سو روپے اور غیر مقامی شاعرکو آمدو رفت کے اخراجات کے طورپر اے سی کا دوہرا کرایہ بھی دیا جاتا ہے۔ اس طرح ہر مقامی شاعر کو تقریباً ساڑھے سولہ ہزار اور غیرمقامی شاعر کو لگ بھگ بیش ہزار روپے ہماری اور آپ کی دہلی اردو اکاڈمی ادا کرتی ہے۔ سنا ہے دلی کے نائب وزیرِ اعلیٰ جناب منیش سسودیا کو وسیم بریلوی کا ترنم بہت پسند ہے۔ گائیکی اور آواز کی خوبصورتی کلاکار پر فوائد کی انگنت کھڑکیاں کھول دیتی ہے، بہر حال ہمیں خوشی ہے کہ وسیم صاحب کے منفرد ترنم نے دہلی کی ایک بھاری بھرکم سیاسی شخصیت کو متاثر تو کیا۔ اس پسند سے دہلی میں تو اردو زبان کو کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں ہے، ممکن ہے وسیم صاحب کی ذات کو پہنچے جس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ آئیے اب ذرا ان اشعار پر ایک نظر ڈالی جائے جو ایوانِ اردو جیسے ادبی جریدے کے صاف ستھرے اور اچھا ادبی ذوق رکھنے والے قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے شائع کیے گئے ہیں۔ہم یہاں ایک بار پھر وضاحت کر دیں کہ ان اشعار کا شعر و ادب کا معمولی سا مذاق رکھنے والے کسی صحافی یا اردو اکاڈمی کے کسی کارکن نے انتخاب نہیں کیا بلکہ شعرائے کرام کے خود کے منتخب کردہ ہیں۔ ایسے موقعوں پر شعراء حضرات عام طورپر غزل کا صرف وہی جاندار اور خوبصورت شعر منتخب کرتے ہیں جو سامع اور قاری کے ذہن کو متاثر کر سکے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ ایوانِ اردو کے قارئین ان اشعار کو پڑھ کر کس قسم کے ردِ عمل کا اظہار کریں لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہماری اس تحریر کو پڑھنے والے قارئین ہماری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ جس بے چارے کی کل کائنات ہی چونی ہو وہ جیب اٹھنی کیسے نکال سکتا ہے۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ ملک کے اس مقتدر مشاعرے میں مشاعروں کی دنیا کی عزت و آبرو سمجھے جانے والے شاعروں اور شاعرات نے سولہ سے بیس ہزار روپے کا نذرانہ لے کر کیسے کیسے بلند پایہ اور معیاری شعر سنائے ہیں جن کے لیے اگر ادب کے نوبل پرائز کی سفارش بھی کی جاے تو کم ہے:
دیر سے پہچان پایا وہ مجھے اچھا لگا
میں بہت خوش ہوں کہ اس نے دیر تک دیکھا مجھے (ڈاکٹر کنور بے چین)
سینے سے لپٹتے ہی پلٹ جانے کی کوشش
لہروں کو کناروں پہ بھروسہ نہیں لگتا
(وسیم بریلوی)
بہت خراب ہے ماحول اس زمانے کا
نکلنا گھر سے تو ماں باپ کی دعا لے کر (منظر بھوپالی)
ایک آنسو کورے کاغذ پر گرا
اور ادھورا خدا مکمل ہو گیا ( راجیش ریڈی)
بیٹیاں اس طرح گھر بار سنبھالے ہوئے ہیں
چھت کو جیسے درو دیوار سنبھالے ہوئے ہیں ( نسیم نکہت)
وہ اس شہرت کی منزل تک بآسانی نہیں پہنچا
اسے اس راہ پر سو بار ٹھکرایا گیا ہوگا ( خورشید حیدر)
جانے کتنے دیے جلائے ہیں
تب کہیں روشنی میں آئے ہیں (ہاشم فیروزآبادی)
لاکھوں صدمے ڈھیروں غم
پھر بھی نہیں ہیں آنکھیں نم (عزم شاکری)
مجھے دیکھنا کس سے میرا شہر ہوگا روشن
وہ مکاں جلا رہے ہیں میں دیے جلا رہی ہوں ( شبینہ ادیب)
بیٹا کالا ہو چاہے گورا ہو
ماں کی نظروں میں لال ہوتا ہے (سندر مالیگانوی)
اتنا ترسایا ہے شادی کی تمنا نے مجھے
اب ہر شخص مجھے اپنا سسر لگتا ہے (سجاد جھنجھٹ)
جو پھول ہم نے بھیجے تھے خط کے جواب میں
اب بھی مہک رہے ہیں ہماری کتاب میں ( صبا بلرامپوری)
لفظ کاغذ پہ سجائیں گے سجانے والے
سوچنا چھوڑ دے اردو کو مٹانے والے
اے انا ؔ کون مٹا سکتا ہے تہذیبِ غزل
جب تلک زندہ ہیں غالب کے گھرانے والے ( انا دہلوی)
ڈاکٹر کنور بے چین ہندی کے شاعر ہیں، اس طرح کے بھرتی کے اشعار ہندی میں تو ممکن ہیں چل جائیں اور پسند کیے جائیں لیکن اردو مشاعرے میں ایک کان سے سن کر فوراً دوسرے کان سے اڑا دیے جاتے ہیں۔ وسیم بریلوی آج کے غیر معیاری مشاعروں میں مقبول شاعر ہیں۔ اردو زبان و ادب کی تہذیب اور شعر فہمی کے وصف سے محروم اور گائیکی کے شوقین سامعین ان کے مائک پر آتے ہی داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے لگتے ہیں۔ زبان و بیان کی باریکیوں سے ناواقف سامعین کیا جانیں کہ بھرسہ لگتا نہیں بلکہ بھروسہ کیا جاتا ہے یا بھروسہ اٹھتا ہے ، وسیم بریلوی نے زبان و بیان کی باریکیوں سے ناواقف سامعین کو ’’ لہروں کو کناروں پہ بھروسہ نہیں لگتا ‘‘ کہہ کر ٹہلا دیا، ہمارا خیال ہے کہ اگر آج کے مشاعروں کو زبان داں، شعر فہم اور سخن شناس سامعین میسر آجائیں تو بہت سے شاعروں کے چولھے ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ اس پس منظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ منظر بھوپالی کا شعر سطحی اور بھرتی کی شاعری کا اعلیٰ نمونہ ہے اسی طرح نسیم نکہت کا شعر شعریت سے خالی ایک بے معنی کا شعر ہے، وہ صرف ترنم کے سہارے ہی داد حاصل کرتی ہیں اور محترمہ انا دہلوی کی طرح ترنم ہی ان کی شاعری ہے۔ ہاشم فیروز آبادی کے شعر کو جشنِ جمہوریت کے مشاعرے کا سب سے زیادہ بے معنی اور لچر شعر کہا جائے تو شاید مبالغہ نہیں ہوگا۔ یہی حال راجیس ریڈی، خورشی حیدر، عزم ؔ شاکری، شبینہ ادیب، سندر مالیگانوی، سجاد جھنجھٹ، صبا ؔ بلرامپوری اور اناؔ دہلوی کے شعروں کا ہے جن میں مہدب شیشے سے بھی فکر و معیار تلاش نہیں کیا جا سکتا۔
ہمیں یقین ہے کہ اگر مذکورہ بالا شعراء اور شاعرات فکر و معیار کو ترستی ہوئی اپنی ان غزلوں کو ایوانِ اردو میں اشاعت کے لیے بھیج دیں تو ایوانِ اردو کے نگراں شہپر رسول صاحب شاید کسی بھی حالت میں ایوانِ اردو کے اوراق پر جگہ نہیں دیں گے تو پھر سوال یہ ہے کہ اس معیار کی شاعری کرنے والوں کو ملک کے اس مقتدر اور بڑے مشاعرے میں مدعو کر کے دلی والوں کی سماعتوں کے ساتھ بھونڈا مذاق کیوں کیا گیا؟ دہلی اردو اکاڈمی پر عوامی خزانے کا منہ صرف اردو زبان کو فروغ دینے کے لیے کھولا گیا ہے نہ کہ سطحی شاعری کرنے والے شاعروں اور شاعرات کو نوازنے اور ان کی جیبیں بھرنے کے لیے اس معیار کی شاعری سننے والے سامعین تو ہوا میں یقیناًکوٹ ہی لہرائیں گے اور سیٹوں پر بیٹھے بیٹھے بھنگڑہ کریں گے۔
9810439067
1 comment
جناب عظیم اختر صاحب کی مشکور ہوں؛ جن کی وجہ سے ہمیں اردو مشاعرہ کا بھنگڑہ دیکھنے کو ملا….