بابری مسجدپرسپریم کورٹ کافیصلہ منظور:جمیعۃ علمائے ہند
ممبئی 13فروری(قندیل نیوز)
آزاد ہندوستان کی پوری تاریخ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے لئے نئی نئی آزمائشوں سے عبارت رہی ہے،لیکن آج جیسے روح فرسا اور حوصلہ شکن حالات ماضی میں بھی نہیں آئے ۔ طلاق ثلاثہ اور احکام شریعت میں حکومت کی مداخلت کی کوشش،بابری مسجد ملکیت معاملے پر سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمات کے لئے جمعیۃعلماء کی کوششوں پر مولاناحلیم اللہ قاسمی نے جمعیۃعلماء ضلع تھانے و پالگھر کی سہ ماہی میٹنگ زکریا مسجد،قسمت کالونی ،ممبرا کوسہ میں روشنی ڈالی ۔مولانا حلیم اللہ قاسمی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں جمعیۃ علماء ہند روز اول سے فریق ہے۔۳۰؍ ستمبر۲۰۱۰ء کو بابری مسجد کے متعلق الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو جس میں ا س نے ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ دیا تھاکو سب سے پہلے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اورعدالت کے حکم کے بموجب ہندی،اردو،فارسی،سنسکرت ودیگر زبانوں میں موجود دستاویزات کے ترجمے بھی کرائے گئے ۔مولانا نے بابری مسجد قضیہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ۲۳؍ دسمبر ۱۹۴۹ء کی شب میں بابری مسجدکے اندر رام للا کی مورتی رکھے جانے کے بعد حکومت اتر پردیش نے بابری مسجد کو دفعہ ۱۴۵؍ کے تحت اپنے قبضہ میں کرلیا تھا جس کے خلاف اس وقت جمعیۃ علماء اتر پردیش کے نائب صدر مولانا سید نصیرالدین فیض آبادی اور جنرل سیکریٹری مولانا محمد قاسم شاہجہاں پوری نے فیض آباد کی عدالت سے رجوع کیا تھافی الوقت جواپیل عدالت عظمی میں زیر سماعت اس میں مولانا سید اشہد رشیدی صدر جمعیۃعلماء اتر پردیش بطور فریق شامل ہیں ،اور جمعیۃعلماء ہند کی نمائندگی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ۳۰؍ ستمبر ۲۰۱۰ء؍ کو الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے جو فیصلہ دیا گیا تھا وہ فیصلہ نہیں بلکہ سمجھوتہ تھا جس کا مطالبہ فریقوں میں سے کسی نے نہیں کیا تھا ۔اسی بناء پر جمعیۃ علماء نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی جس پر جمعرات کو سماعت عمل میں آئی اور اس کی اگلی تاریخ ۱۴؍ مارچ مقرر کی گئی ہے۔جمعیۃ علماء ہند کا کہنا ہے کہ عدالت کو آرجیکل سروے آف انڈیا کی رپورٹ کی روشنی میں حق ملکیت کا فیصلہ کرنا چاہئے اور عدالت جو بھی فیصلہ کردے گی وہ ہمیں منظور ہوگا،لیکن فریق مخالف حیلے بہانے سے اس کو آستھا کا موضوع بنانے پر تلا ہوا ہے،جمعیۃعلماء امن و امنا کی بحالی کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حق ملکیت کا فیصلہ چاہتی ہے اور عدالتوں کا یہی دائرہ اختیار بھی ہے۔طلاق ثلاثہ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا حلیم اللہ قاسمی نے فرمایا کہ یہ ملک کو یکساں سول کوڈ کی جانب لے جانے کی ایک کوشش ہے جس کا عملی آغاز اس وقت ہوگیا تھا جب سپریم کورٹ آف انڈیا کے جسٹس وکرم سین اور جسٹس شیوا کرتی سنگھ نے۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۷ء کوایک سوموٹو جاری کرکے حکومت ہند سے جواب طلب کیا کہ کیوں نہ ملک میں یکساں سول کوڈ بنایا جائے؟اخبارات میں اس کی خبر آنے کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے صدر محترم حضرت مولانا سید ارشد مدنی کے حکم پر جمعیۃ علماء ہند کے رکن عاملہ اور جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے صدر مولانا مستقیم احسن اعظمی صاحب کی طرف سے ۵؍ فروری ۲۰۱۶ کو سپریم کورٹ میں اس نوٹس کے تعلق سے مداخلت کار بننے کی درخواست داخل کی گئی،جس کوسپریم کورٹ نے منظور کیا اور حکومت ہند کو اس اعتراض کا جواب داخل کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ جو۷؍ اکتوبر ۲۰۱۶ء کو سپریم کورٹ میں اپنا جواب داخل کیاجس میں مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے ۳؍ طلاق اور دوسری شادی پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کی تھی۔اس کے بعد جمعیۃعلماء کے وکلاء نے د ارالعلوم دیوبند کے مفتیان عظام ا ور علماء کرام سے ان مسائل پر سیر حاصل گفتگواورتبادلہ خیال کے بعداسلامی تعلیمات (قرآن شریف، مستند احادیث اور فقہی جزئیات)کی روشنی میں ہی حلف نامہ تیارکرکے مارچ ۲۰۱۷ء میں اسے عدالت میں پیش کیا گیا۔جس میں طلاق ثلاثہ کو چاروں امام کے مسلک کی روشنی میں جائز قرار دیا گیا ہے ،اور تعدد ازدواج و نکاح حلالہ کو بھی عین شریعت کے مطابق تسلیم کیا گیا ہے۔نیزجمعیۃ علماء ہند نے عدالت سے یہ مطالبہ کیا تھاکہ طلاق ثلاثہ ،حلالہ اور تعدد ازدواج کے تعلق سے جو عرضداشتیں داخل کی گئی ہیں انہیں مسترد کردیا جائے۔بالآخر سپریم کورٹ نے محض چند درخواستوں کو اہمیت دیتے ہوئے ظلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دے دیا ،اس کے بعد مرکزی حکومت نے طلاق ثلاثہ پر۲۸؍ دسمبر ۲۰۱۷ء کو لوک سبھا سے بل منظور کروا لیا ہے جس سے شریعت اسلامی پر کھلی زد پڑتی ہے،اور اس کو راجیہ سبھا میں پیش کیا گیا ،مسلم پرسنل لاء بورڈکی بر وقت کوششوں سے ۳؍ جنوری و۵؍ جنوری ۲۰۱۸ء کو راجیہ سبھا سے یہ بل منظور نہ ہو سکا۔اس موقع پر نظامت کے فرائض اور کارروائی کی خواندگی حافظ محمد عارف انصاری نے کی ۔ میٹنگ میں جمعیۃعلماء ضلع تھانے و پالگھر کی یونٹوں کے ذمہ داران و اراکین منتظمہ نے شرکت کی جن میں مفتی لئیق احمد قاسمی ،مفتی یاسین قاسمی،مفتی حفیظ اللہ قاسمی ،مفتی فیاض قاسمی،مولانا نور اللہ قاسمی،مولانا عبد الوہاب قاسمی،حافظ ذاکر سابلے،حافظ ایاز،قاضی عبد اللہ قاسمی،مولانا عبدالصمد قاسمی،حافظ محمد الیاس،حافظ لقمان،مولانا عبد السبحان،مولانا شمشیر عالم قاسمی،حافظ علی حسین،مولانا عبد القدوس،مفتی محمد اعلم ،مولانا قطب اللہ،مولانا طارق،مولانا احمد اللہ ،مولانا ذوالفقار ،حاجی عبد المتین شیخ حمید منصوری،محمد اسلم شیخ ،مولانا عقیل احمد مظاہری،مولانامحمد ادریس قاسمی،مفتی عبد الاحد قاسمی،حاجی یونس خان،حاجی صغیر
احمد خان،مولانا عتیق الرحمٰن وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔آئندہ سہ ماہی میٹنگ ۸؍ اپریل ۲۰۱۸ء کو مدرسہ سراج العلوم بھیونڈی میں ہونا طے پایا ہے