نایاب حسن
پروفیسرمشیرالحسن نے اپنی کتاب Legacy Of A Divided Nationمیں کانگریس کے مبینہ "مسلم تشٹی کرن "کی نقاب کشائی کرتے ہوئے یہ لکھاہے کہ اس نے کبھی بھی مسلمانوں یاہندووں کومجموعی طورپرنوازنے کی پالیسی نہیں اپنائی، اس کایہ "تشٹی کرن ” بلاواسطہ دونوں طبقوں کے دھرم گرووں تک محدودرہا اوران گرووں کودونوں طرف کے عوام کواُلوبنانے کے لیے استعمال کیاگیا، وہ اپنے اس نقطۂ نظرکی وضاحت کے لیے کئی مثالیں پیش کرتے ہیں، جن میں سے ایک بابری مسجدکاتالاکھلوانااورشاہ بانوکیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے فیصلے کابدلاجاناہے، وہ لکھتے ہیں کہ یکم مئی 1986کوراجیوگاندھی نے دائیں بازوکے دباؤ، اپنے نرم ہندوتوانظریہ اور سیاسی مفادات کی خاطربابری مسجدکاتالاکھلوایا، جس کے بعدملک بھرکے مسلمانوں میں ہیجان برپاہوگیا، پھراس کے ٹھیک پانچ دن بعد 6مئی کوشاہ بانوکیس میں سپریم کورٹ کے ذریعے دیے گئےفیصلے کوچند "مخلصین "کے مشورے سے راتوں رات بدلوادیا، اب مسلمان بابری مسجد سے "بے نیاز ” ہوکراپنے علماومشائخ کی "روحانی قوت "کے گن گان میں مصروف ہوگئے اوربابری مسجد، جوسجدہ گاہ تھی، وہ "دھرم استھل "یا "رام جنم بھومی "میں تبدیل ہوگئی …… ہندوبھی خوش اورمسلمان بھی خوش!
گویامسلمانوں کے لیے تب بابری مسجدسے زیادہ اہم مسئلہ یہ تھاکہ مطلقہ خاتون کوایامِ عدت گزرنے کے بعد نفقہ ملناچاہیے یانہیں؟چنانچہ اس مسئلے میں ان کی (مذہبی قیادت کی) بات مان لی گئی، بابری مسجدکے ساتھ جوکچھ ہوایاآیندہ جوہونے والاتھا،اس طرف کسی نے جانے یا اَن جانے میں کوئی توجہ ہی نہ دی اورپھرمستقبل قریب میں ہی یہ قضیہ کئی قیامت خیزانقلابات کاپیش خیمہ ثابت ہوا،یہ قضیہ آزادہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں کی سماجی، معاشی، ثقافتی وفکری مقہوریت کی علامت بن گیا، ہندوستان کے مسلمان صرف اس ایک معاملے میں ہی ہزارہاجانیں گنوانے، مال واسباب تباہ کروانے کے باوجودنہ خودکسی فیصلہ کن مرحلے تک پہنچ سکے، نہ سیاسی قوتوں نے اس کومنطقی انجام تک لے جانے کاارادہ کیااورناہی ملک کی عدلیہ ہی یہ جرأت کرسکی کہ اس قضیے میں کوئی دوٹوک فیصلہ دے….. آگے کیاہوناہے، وہ توپردۂ غیب میں ہی ہے!
"مسلم تشٹی کرن "کاہوَّا!
previous post