تازہ بہ تازہ، سلسلہ 28
فضیل احمد ناصری
وہ بےغیرت جو معمولی ہواؤں سےبھی ڈرجائے
کہو اس سے کہ اک چلّو میں ڈبکی کھاکےمرجائے
زمانہ جان لے یہ کارواں ہے سرفروشوں کا
جسےجینےکی پرواہو،وہ فوراً اپنےگھرجائے
یہ دنیاعیش وعشرت کی نہیں ہے،قیدخانہ ہے
وہی دانا ہے جو اس سے بہ استغنا گزرجائے
الجھ جاتی ہے ہر تعبیر پیچیده بیانی سے
کہو ایسا کہ ہر سامع کےسینےمیں اترجائے
غمِ فرقت کےماروں کوکبھی آرام بھی دیدو
کہیں ایسا نہ ہو دل ٹوٹ کر ہرسو بکھر جائے
قلندر کے جنوں سے پختہ ہے عزمِ سفر میرا
نہیں وہ میں جو چٹّانوں کی ہیبت سے مکر جائے
شکستیں ہیں حقیقت میں ہمارےعشق کی خامی
مسلماں وہ ہے جس کو دیکھ کر طوفاں ٹھہرجائے
سیاست نے مگر گجرات و دلّی ایک کر ڈالا
کہاں ممکن کسی کوچے سے کوئی بے خطر جائے
کبھی لامذہبی حملے، کبھی بھاجپ کے ہنگامے
یہ امت کشمکش میں ہے خدا جانے کدھر جائے