Home قومی خبریں مسلمانوں نے بہت صبر کر لیا اب ہمارے صبر کا اور امتحان نہ لیا جائے

مسلمانوں نے بہت صبر کر لیا اب ہمارے صبر کا اور امتحان نہ لیا جائے

by قندیل

مسلمانوں نے بہت صبر کر لیا اب ہمارے صبر کا اور امتحان نہ لیا جائے
راجستھان میں وحشیانہ انداز میں ایک مسلمان کے قتل پرالیکشن کے زمانہ میں :مولانااحمد بخاری کا شدید رد عمل
                                                                                                                                                                (نئی دہلی8دسمبر (قندیل نیوز 
ایسے وقت میں جب کہ مسلمانوں کی طرف سے اشتعال انگیزبیانات اورردعمل کاانتظارکیاجارہاہے تاکہ سیاسی فائدہ اٹھایاجاسکے، شاہی امام مولانا سید احمد بخاری نے سخت ردعمل ظاہرکیاہے ،جس سے ووٹوں کی صف بندی ہوسکتی ہے ۔واضح ہوکہ لوک سبھاالیکشن کے زمانے میں مولانانے بخاری کانگریس کی کھل کرحمایت کی۔اس حمایت سے خواہ کانگریس کوایک بھی ووٹ نہ پڑاہو،لیکن بی جے پی کوووٹوں کے ارتکازمیں ضرورمددملی۔حالانکہ اس سے دس سال قبل وہ بی جے پی کے لیے اپیل کرچکے ہیں۔اس سے ان کی سیاسی وفاداریاں بدلنے کی روایت اظہرمن الشمس ہے۔آج کے بیان کے بعدضروریہ سوال کیاجائے گاکہ پھرکس بنیادپرانہوں نے اسی بی جے پی کوووٹ دینے کی اپیل کی تھی۔ راجستھان کے راج سمند میں ایک مسلمان کے بہیمانہ انداز میں قتل اور اسے نذر آتش کیے جانے اور پھر اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جانے والے واقعہ پر شدید رد عمل ظاہر کیا ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی سے سوال کیا ہے کہ وہ اس معاملے پر خاموش کیوں ہیں؟۔امام بخاری نے اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ یہ واقعہ اور اس کی ویڈیو انتہائی دل دہلا دینے والی ہیں۔ اب اس قسم کے وحشیانہ واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں نے بہت صبر سے کام لیا ہے۔ حکومت اب ہمارے صبر کا اور امتحان نہ لے۔ اب تک ہم بہت سے واقعات پر مصلحتاً خاموش رہے۔لیکن اب خاموش رہنے کا وقت نکلتاجارہاہے۔ بار بار ملک میں قومی یکجہتی کی بات کی جاتی ہے اور بھائی چارے کو قائم رکھنے پر زور دیا جاتا ہے لیکن کیا قومی یکجہتی کے قیام کی ذمہ داری صرف مسلمانوں پر عاید ہوتی ہے۔ بے قصور مسلمانوں کو چن چن کر ہلاک کیا جائے اور پھر بھی قومی یکجہتی کا نعرہ ہم ہی لگائیں۔ قومی یکجہتی کے قیام کا ٹھیکہ مسلمانوں نے نہیں لیا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم سے سوال کیا کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی ٹویٹ کرتے ہیں، لیکن اس درندگی پر خاموش کیوں ہیں؟ وہ اپنی انتخابی ریلیوں میں بہت سے معاملات پر تو بول رہے ہیں ۔لیکن اس بربریت پر انہیں اپنے فرض منصبی کومکمل ذمہ داری کے ساتھ اداکرناچاہئے۔اور ایسے واقعات کو روکنے کی پوری کوشش کرناچاہئے۔امام بخاری نے مزید کہا کہ بے قصور مسلمانوں کو انتہائی بربریت کے ساتھ قتل کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ سب سے پہلے دادری کے محمد اخلاق کو مارا گیا، پھر الور میں پہلو خان کو دوڑا دوڑا کر اور پیٹ پیٹ کر ہلاک کیا گیا، ہریانہ کے حافظ جنید کا قتل کیا گیا، راجستھان ہی کے عمر خان کو ہلاک کر دیا گیا، ٹرینوں میں ٹوپیاں پہننے پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ، مسلم شناخت والے لباس پہننے والی خواتین کو تشدد کا شکار بنایا گیا، اگر کوئی مسلمان گائے لے کر کہیں جا رہا ہے تو اسے گائے کا اسمگلر کہا گیا اور اس پر حملہ کیاگیا، اس درندگی کا سلسلہ آخر کب تک چلے گا۔ مسلمانوں کے خلاف ظلم کی انتہا ہوتی جار ہی ہے اورصبرکاپیمانہ لبریزہوتاجارہاہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عاید ہوگی۔انہوں نے الیکٹرانک میڈیا کو بھی ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ وہ بھی اس قسم کے واقعات میں اضافے کا ذمہ دار ہے۔ اگر میڈیا ایسے واقعات کو صحیح تناظر میں دکھائے اور ان کی مذمت کرے تو اس طرح کے واقعات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ راج سمند کے مذکورہ واقعہ کو بھی الیکٹرانک میڈیا اس طرح نہیں دکھا رہا ہے جس طرح اسے دکھانا چاہیے۔امام بخاری نے یہ بھی کہا کہ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ملک میں نفرت کا ایک ماحول بنا دیا گیا ہے۔ مگر یاد رکھیے کہ یہ ماحول صرف مسلمانوں کو ہی نقصان نہیں پہنچا رہا ہے بلکہ اس سے ملک کو بھی شدید نقصان ہو رہا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کے مختلف حصوں میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور حکومت شرپسند عناصر کے سامنے بے بس ہے۔انہوں نے حکومت سے کہاکہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کو روکے اور قصورواروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کرے۔

You may also like

Leave a Comment