Home نظم مستقبل کے تارے

مستقبل کے تارے

by قندیل

تازہ ترین، سلسلہ 69

 فضیل احمد ناصری

زمیں یا آسماں ہو، ہر طرف خونیں نظارے ہیں
قیامت آنے والی ہے، یہ قدرت کے اشارے ہیں

وہ امت، جس کے قدموں میں کبھی تھے قیصر و کسریٰ
اسی کے نام لیوا آج ہر دشمن سے ہارے ہیں

نہ اظہارِ ندامت ہے، نہ احساسِ زیاں باقی
سحر تا شام کاندھوں پر گناہوں کے پٹارے ہیں

نہ دیکھ اے ہم نشیں ان بوریہ والوں کو نفرت سے
یہ بندے ملتِ بیضا کے مستقبل کے تارے ہیں

جلا دیں گے یہ بجلی بن کے تیرے آشیانے کو
انہیں پانی نہ سمجھو، خونِ مسلم کے شرارے ہیں

جنہیں ملّا بتا کر قوم ٹھکرانے میں غلطاں ہے
انہیں کی گونج سے آباد مسجد کے منارے ہیں

الہی! دل مسلماں کا منور کیوں نہیں ہوتا
وہی فرمانِ پیغمبرؑ، وہی قرآں کے پارے ہیں

زمانہ منتظر ہے پھر ہماری سرفروشی کا
حرم والو اٹھو! اہلِ کلیسا سر ابھارے ہیں

عدو پھیلائے جاتے ہیں بساطِ حکمرانی کو
نہ جانے کیوں ابھی تک ہم کنارے ہی کنارے ہیں

You may also like

Leave a Comment