محبت کی خوشبو شعروں میں سمونے والی اردوکی مشہورومقبول شاعرہ پروین شاکر کو ہم سے بچھڑے 23 برس بیت گئے۔ پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، آپ کو اردو کے منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔آپ نے انگلش لٹریچر اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔انھوں نے بہت چھوٹی سی عمر میں شعر و شاعری کا آغاز کیا، پروین سے پہلے کسی شاعرہ نے نسوانی جذبات کو اتنی نزاکت سے بیان نہیں کیا۔انھوں نے الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کر سادہ الفاظ میں نسائی انا، خواہش اور انکار کو شعر کا روپ دیا۔
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
ان کی شاعری میں روایت سے انکار اور بغاوت بھی نظر آتی ہے، انہوں نے اپنی شاعری میں صنف نازک کے جذبات کی تصویریں بنائیں اور اس کے دکھوں اور کرب کو نظموں میں ڈھالا۔بینا کے نام سے آغاز میں پہچانی جانے والی شاعرہ کی پہلی کتاب خوشبو 1976 میں شائع ہوئی جبکہ ان کی دیگر مشہور کتابوں میں انکار، صدِبرگ، خودکلامی اور کف آئینہ شامل ہیں۔انھوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نویسی بھی کی، اس کے علاوہ انہیں ادب میں بہترین خدمات پر پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد میں ٹریفک کے ایک حادثے میں وہ 42 سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں۔ان کو ہم سے بچھڑے 23 برس ہوچکے ہیں، مگر ان کی شاعری خوشبو کی طرح کو بہ کو پھیلتی چلی جا رہی ہے۔
مر بھی جاؤں تو کہاں، لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے