نئی دہلی:3 ؍مارچ(قندیل نیوز)
آسٹریا کے دارالحکومت ویانہ میں ’’کیسیڈ‘‘ (C A I C II D) کی سہ روزہ بین المذاہب کانفرنس سے فراغت کے بعد جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ مذہب کے نام پر کسی بھی طرح کا تشدد قابل قبول نہیں ہوسکتا ، انہوں نے کہا کہ مذہب تو انسانیت ،رواداری ،محبت اور یکجہتی کا پیغام دیتا ہے اس لئے جولوگ اس کا استعمال نفرت اور تشددبرپا کرنے کیلے کرتے ہیں وہ اپنے مذہب کے سچے پیروکار نہیں ہوسکتے اور ہمیں ہرسطح پر ایسے لوگوں کی مذمت اور مخالفت کرنی چاہئے ، مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیادپر دنیا کے تمام مصیبت زدہ لوگوں کی مددکرنی چاہئے کہ یہی انسانی فرض بھی ہے، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سربراہان مملکت دل پزیر تقریریں تو کرتے ہیں مگر اپنی کہی ہوئی باتوں پر عام طورپر عمل نہیں کرتے دنیا کے موجودہ حالات کے تناظرمیں انہوں نے وضاحت کی کہ دنیا کے بیشتر ممالک بدامنی انتشاراور تشددکا شکار ہیں ،کہیں نسلی تعصب ہے تو کہیں لسانی ، مذہبی تعصب کو ہوادیکر انتشار وتفریق پیداکی جارہی ہے ، انہوں نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کہیں کہیں سیاست دانوں میں نفرت کی تخم ریزی کرکے اقتدارحاصل کرنے کی ہوس شدیدترہوگئی ہے ، جس کی وجہ سے پوری دنیامیں تعصب اور مذہبی تشددمیں غیر معمولی طورپر اضافہ ہوا ہے بعض حکمرانوں نے ڈراورخوف کی سیاست کو اپنا شعاربنالیا ہے ، لیکن میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ حکومت ڈراور خوف سے نہیں بلکہ عدل اور انصاف سے ہی چلاکرتی ہے،انہوں نے کہا کہ حالات بہت دھماکہ خیز ہوتے جارہے ہیں ایسے میں ہمیں متحدہوکر میدان عمل میں اترنا ہوگا ، کیسڈکی بین المذاہب کانفرنس کی ستائش کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ اس سے افہام وتفہیم کی راہیں کھلی ہیں ، اور ہم سمجھتے ہیں کہ مختلف مذاہب کہ لوگوں کے اس طرح ایک ساتھ آنے اور بات چیت کرنے سے بہت سی غلط فہمیوں کا نہ صرف ازالہ ہوگا بلکہ پوری دنیا میں اس کا ایک مثبت پیغام بھی جائے گا اور عالمی سطح پر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان انشاء اللہ اتحاد واتفاق کی فضاء ہموار ہوگی ، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی طرح مذہبی شدت پسندی بھی نسل انسانی کے لے انتہائی خطرناک ہے ، لیکن مذہبی تشدد کے خلاف عالمی سطح پر اب تک کوئی مؤثر کوشش نہیں ہوئی ہے تاہم امید افزا بات یہ ہے کہ کیسڈ نے اس مسئلہ کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے اوراس کے خاتمہ کے لئے مؤثر انداز میں پوری دنیا میں کام کررہی ہے ۔
مولانا مدنی نے کہا کہ شام میں جو کچھ ہورہا ہے اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اقتدارکی بالادستی کی جنگ میں معصوم بچے ظلم واستبداد کا نشانہ بن رہے ہیں اور پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں اب تک کااقوام متحدہ کاکردار بہت افسوسناک رہا ہے ہوسکتا ہے عالمی طاقتوں کے دباؤ میں ایسا ہولیکن اس سے جن مقاصد کو لیکر اس عالمی ادارے کی تشکیل ہوئی تھی وہ فوت ہورہے ہیں، مولانا مدنی نے عالمی لیڈروں اور خصوصا اسلامی ممالک سے یہ مطالبہ کیاہے کہ شام میں جس طرح انسانیت کا خون ہورہا ہے اس کو روکنے کے لئے وہ آگے آئیں ورنہ کل تک بہت تاخیر ہوچکی ہوگی صرف مذمتی بیان نہیں بلکہ عملی اقدامات بھی کریں۔
اس اجلاس میں متعدداہم قراردادیں منظور ہوئیں تین اہم کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں ، ایک مشرق وسطیٰ کے لئے ، دوسری یورپ وامریکہ اور تیسری ایشاکے امور کو دیکھنے کے لئے بنائی گئی ہیں ، اجلاس کے دوران کیسڈ کے ذمہ داران نے بتایاکہ برمامیں تین سو مقامی مذہبی لوگوں کا جن میں مسلمان ، عیسائی اور بودھ وغیرہ شامل ہیں باقاعدہ ایک گروپ تیارکرکے انہیں تربیت بھی دی گئی ہے ، اس گروپ کی اب تک چارمٹینگیں ہوچکی ہیں ، یہ برمامیں مذہبی تشددپر قابوپانے اورمختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیداکرنے کے مقصدکے تحت کام کررہا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آنے لگے ہیں ۔ میٹنگ کے دوران صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا مدنی نے جو دوماہ قبل بنگلہ دیش میں روہنگیائی مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کیا تھا اس کی تفصیل پیش کی مولانا مدنی نے جہاں پناہ گزینوں کے مسائل اور حالات سے مندوبین کوآگاہ کیا وہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کیمپوں میں ہم نے اب تک 165 ایسے اسکول قائم کئے ہیں اور روز بروز اس کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جن میں برما کا ہی نصاب تعلیم رکھاگیا ہے تاکہ جب یہ مہاجربچے اپنے وطن واپس جائیں تو آگے کی تعلیم جاری رکھنے میں ان کو کوئی دشواری پیش نہ آئے ، مدرسین کا انتخاب بھی برمی مہاجرین ہی میں سے کیا گیا ہے ، اور تقریبا ایک اسکول کا خرچ چھ لاکھ اٹکا آتاہے جو بنگلہ دیشی مخیرحضرات کے توسط اور تعاون سے پورا ہوتا ہے ، مولانا مدنی نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ برما کے مذہبی تشددمیں تقریبا چالیس ہزار بچے یتیم ہوئے ہیں ، جن پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں وہ یتیموں کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے ہاتھ نہ لگ جائیں اگر ایسا ہوتا ہے تو ان کا ایمان پر قائم رہنا مشکل ہوجائے گا ، واضح رہے کہ مولانا مدنی نے کہا کی ا یشاء کے لئے الگ سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کمیٹی میں صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی کو بھی شامل کیا گیا ہے ،یہ کمیٹی نہ صرف ان کی نگرانی کریگی بلکہ ایشاء میں اس طرح کے حالات میں مظلومین کے ضروریات کا بھی خیال رکھے گی ۔مولانا مدنی نے کہا کہ عالمی تناظرہ میں اس طرح کے کانفرنس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی یہی وقت ہے کہ جب مذہبی رہنما اگر مذہب کے امن وامان اور پیارومحبت کے پیغام کو لیکر آگے بڑھتے ہیں تو حالات پر قابوپایاجاسکتا ہے ۔ یہ کانفرنس جن مقاصد کو لیکرہورہی ہے اس میں بے حد کامیاب رہی مذہبی تشددپر قابوپانے کے لئے اجلاس میں نہ صرف یہ کہ راہ عمل کی منصوبہ بندی کی گئی بلکہ افہام وتفہم کے ذریعہ پوری دنیا میں امن قائم کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔ کانفرنس میں ہندوستان ،عراق،سعودی عرب،فرانس،نائجیریا، لبنان،اٹلی،انڈونیشیا،برازیل، نیوزیلینڈ،امریکہ ، مراکش،جرمنی، برطانیہ یورپ وغیرہ سے بڑے بڑے مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی جن میں مسٹر وینرل بیل سوگیتانی، چیئرمین ریلیجنس فار پیس جاپان، ڈاکٹر ویلیم وینڈیلی، سیکریٹری جنرل آف ریلیجنس فارپیس انٹرنیشنل ، محترمہ ایواردتھ پالمیری، منتخب کونسلرآف ایکزیکیوٹیوبورڈآف دی یونین آف اٹلی جیوش کمیونیٹیز(یہودی سوسائٹی) سید علی بن محمد الامین ، مذہبی رہنما وسیاسی ومذہبی کارکن لبنان، ڈاکٹر جوہن جورجوپولس ، فرانس ، محترمہ سی روسالی ویلیسو برازیل، ڈاکٹر جورج آرم سٹرونگ، نیوزی لینڈ، چیف ربی ازاک ہلیوا، چیف ربی آف ترکی، ڈاکٹر محمد ہدایت نوروحید انڈونیشنا، ڈاکٹر حسین بن غازی السمیرا عراق، پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحیم حفیدی، فرانس، پروفیسر ڈاکٹر دین شمس الدین انڈونیشیا ، بشپ میتھیو کوکاہ ، نائجیریا ، بی بی کرنجوت کور، پنجاب، انڈیا، ہندودھرم گروسوامی چیدانند سادھوی بھگوتی سارتی، اور اچاریہ لوکیشن منی کے نام قابل ذکر ہیں۔
کانفرنس میں (KAICIID)کے جنرل سکریٹری فیصل بن معمر نے اپنے پیغام میں کہا کہ نفرت اوردوریوں کو ختم کرنے کے لئے اخوت ومحبت کوفروغ دینا ہوگا ، انہوں نے کہا کہ کوئی بھی مذہب تفریق یا نفرت کا درس نہیں دیتا ہے اگر کسی مذہب کے نام پر تفریق اوردوری پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ مذہب نہیں ہے یا پھر اسے سمجھا نہیں گیا ، فیصل بن معمر نے کہا کہ محبت ، اخوت اور امن کا پیغام دینے والے مذاہب میں اسلام سب سے آگے ہے ۔
واضح رہے کہ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز بین الاقوامی مرکز برائے مکالمہ بین المذاہب والثقافات (KAICIID) ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کا مقصدتنازعات کے حل اور روک تھام کے حوالے سے افہام وتفہیم اور تعاون کو عالمی سطح پر مکالمے کے استعمال کو فروغ دیناہے ۔ سات سال کے طویل مذاکرات کے دوران (KAICIID)نے مختلف عقائد اور تہذیبوں کے لوگوں کے درمیان مکالمے کی راہ ہموار کی ہے ، جس نے آپس کی دشمنی کو ختم کرنے،خوف کو کم کرنے اور باہمی احترام کے جذبے کو فروغ دینے میں اہم کردار اداکیا ہے ۔ بین الثقافتی والمذاہب مکالموں نے باہمی معاشرتی مزاحمت اور تعصب کو بھی کم کیا ہے اور امن وآشتی کے حوالے سے سماجی اہم آہنگی کو مضبوط کرنے میں ایک خدمت انجام دی ہے ، ایک بین الاقوامی تنظیم کے طورپر (KAICIID)نے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی حمایت کرتا ہے بالخصوص سوچ، ضمیراور مذہب کی آزادی کے حقوق کے حوالے سے سینٹرثقافت، مذہب یا عقیدے کی بنیادپر امتیازات کی تمام شکلوں کی مخالفت کرتا ہے اس کا مقصد مذہبی رہنماؤں اور حکومتی نمائندوں کو پائیدار امن کے لئے مکالمے کی میز پر لانا ہے ۔
(KAICIID)اپنے مقاصدکے حصول کے لئے اپنے پارٹنرس پر انحصارکرتا ہے ، تنظیم اپنے پنے مقاصدکو حاصل کرنے کے لئے مختلف مذاہب کے رہنماؤں ، مذہبی تنظیموں، مکالمے پریکٹیشنر، بین الاقوامی اداروں ، حکومتوں ، یونیورسیٹیوں اور نیٹ ورک کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں ۔ ان پارٹنرس میں دنیا کی مشہور سماجی تنظیمیں ہیں، جن میں تنظیم تعاون اسلامی (OIC)انسٹی ٹیوٹ سپیریئر ڈی (Religioses Ciencies)باسلونا، (ISCREB)اسپین ، اسلامی تعلیمی سائنس اور ثقافتی تنظیم (ISESCO )رباط، مراکش، یونیسکو، (DE UNIVERSITE)مونٹریال، کناڈا، سکاؤٹ تحریک کی عالمی تنظیم (WOSM)،جینیوا، سیوزرلینڈ، افریقی یونین کے نام قابل ذکرہیں۔
مذہب کےنام پرتشدد قابل قبول نہیں:سیدارشدمدنی
previous post