Home نقدوتبصرہ مدارس کی تعلیم-عصری تعلیم اور سماجی کردار کے معاصر تقاضوں کی روشنی میں

مدارس کی تعلیم-عصری تعلیم اور سماجی کردار کے معاصر تقاضوں کی روشنی میں

by قندیل

نام مؤلف : ڈاکٹر محمد فہیم اختر ندوی
صفحات : ۱۴۴ ، قیمت : ۱۲۰ ، سن اشاعت: ۲۰۱۸
ناشر : ہدایت پبلیشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس ، نئی دہلی۔
Mob:0989105167
تبصرہ نگار : محمد صلاح الدین ایوبی
پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ اسلامک اسٹڈیز ،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد
Mob: 9394717576

مؤلفِ کتاب ڈاکٹرفہیم اخترندوی ایک معروف عالم دین اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے صدر ہیں، آپ کے قلم گہر بار سے بیسیوں مقالات و مضامین اور دسیوں کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ، اسی سلسلے کی ایک کڑی زیر تبصرہ کتاب بھی ہے ۔ یہ کتاب دراصل آپ کے مقالات کا مجموعہ ہے ، جس میں انیس (۱۹)مقالات شامل کئے گئے ہیں اور ان کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب تعلیم کے عنوان سے ہے ، جس میں تین مقالات ہیں ، پہلے مقالے میں علم کے حصول اور اس کی اشاعت پر بحث کی گئی ہے، نیزقرآنی آیات اور نبوی احادیث کی روشنی میں حصول علم کی فرضیت ،اہمیت اور اس کی اشاعت کی ضرورت کو بڑے اچھوتے، البیلے اور سہل اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔دوسرے مقالے میں مؤلف نے اسلام میں تصورِ علم کی جامعیت کو موضوع بحث بنایا ہے اور علم کو دینی اور دنیاوی خانوں میں تقسیم کئے جانے کی تردید کرتے ہوئے اس کو غیر اسلامی قرار دیا ہے اور فرمایاہے کہ اسلام نے علم کو نافع اور غیر نافع میں تقسیم کیا ہے،نہ کہ دینی اور دنیاوی میں ۔ ہر وہ علم جو انسانیت کے لئے نفع بخش ہو، اسلام نے اس کے حصول کی ترغیب دی ہے اور جو علم انسانیت کے لئے نقصان دہ اور مضر ہو اسلام نے اس سے منع کیا ہے۔ اسلام وہ جامع مذہب ہے، جو زندگی کے ہر میدان میں دنیا کے ساتھ ساتھ دین کو ہم رکاب کر کے چلتا ہے ، یہ دین کو مسجد کی چہار دیواری کے اندر اور ذاتی زندگی کے کچھ گوشوں تک محدود نہیں رکھتا اور نہ ہی دنیا اور کاروبارِدنیا کو شجر ممنوعہ قرار دیتا ہے ۔ تیسرے مقالے کا عنوان ہے تعلیم کا مقصد کیا ہے؟ اس میں فاضل مؤلف نے تعلیم کے مقصد پر روشنی ڈالی ہے اور یہ کہا ہےکہ تعلیم کا مقصد اپنے جیسے انسانوں کو غلام بنانا اور علم کے اسلحہ سے لیس ہو کر تعلیم سے محروم انسانوں پر ظلم کرنا نہیں ہے ، جو آج بد قسمتی سے عام ہوتا جارہا ہے؛بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ تعلیم کے ذریعے زندگی میں خوشگواری اور سلیقہ آجائے اور تعلیم یافتہ شخص سماج اور تعلیم سے محروم لوگوں کی زندگی میں امن و خیر کو عام کر سکے۔
دوسرے باب کا عنوان ہے : تعلیمی ادارے ۔ اس میں سات مقالات کو جگہ دی گئی ہے: پہلا مقالہ’’ مذہبی تعلیم اور عصری تعلیم کے دو متوازی نظام اور مستقبل کا لائحۂ عمل‘‘ کے عنوان سے ہے ،اس مقالے میں ہمارے موجودہ تعلیمی منظرنامہ کو پیش کیا گیا ہے،جو بڑی حد تک برطانوی دور اور ملک کی آزادی کے بعد کی صورت حال سے تعلق رکھتا ہے، اس دور میں دو طرح کے تعلیمی ادارے قائم ہوئے: ایک وہ جو بدلے ہوئے سیاسی احوال میں اپنے دین و ایمان کے تحفظ اور دینی و مذہبی علوم کی اشاعت کے لئے قائم کئے گئے تھے،جو دینی مدارس کے نام سے موسوم ہوئے ، دوسرے وہ ادارے،جو مسلمانوں کی معاشی، سیاسی اور سماجی صورت حال کو بہتر بنانے اور وقت کے بازار میں اپنی قدر و قیمت منوانے کے لئے نسل نو کی ایسی کھیپ تیار کرنے کے لئے قائم کئے گئے، جو نئی زبان، نئی اصطلاحات اور نئے رنگ و آہنگ میں سماج کو قوت پہنچاسکیں ، ایسے ادارے عصری تعلیم گاہیں کہلائے ، یہ دو قسم کے تعلیمی دھارے تھے، جو متوازی طور پر بہتے رہے اور ان دونوں نے ملت کی آبیاری کی، دونوں نے اپنے میدانِ عمل میں تجربات کئے اور دونوں کے پاس اپنی قوت اور ضعف کے تئیں احساسات اور افکار ہیں ۔فاضل مؤلف نے اس ضمن میں مختلف سوالات اٹھائے ہیں اور اقدامات کے لئے کچھ تجاویز پیش کی ہیں۔اس کے بعد ’’دینی مدارس کی عصری ہم آہنگی‘‘ ، ’’ملک کی ترقی میں دینی مدارس کی شراکت‘‘ اور’’ معاشرہ کی تعمیر میں دینی مدارس کا کردار‘‘ جیسے عناوین پر مقالات ہیں، جن میں دینی مدارس کی اہمیت، افادیت اور خدمات کے علاوہ ان کے نصاب میں عصری مضامین کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور مدارس کے ارباب حل و عقدکو اس جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’’مدارس کے طلبہ کی اعلی تعلیم کا فاصلاتی نظام‘‘، ’’داخلہ کے مسابقاتی نظام میں تعلیم سے محرومی‘‘ اور’’ سائنسی اور سماجی علوم کے لئے بریج کورس‘‘ جیسے عناوین سے مقالات بھی شامل کتاب کئے گئے ہیں۔
تیسرا باب : نصابی مضامین کے عنوان سے ہے ، اس میں پانچ مقالات شامل کئے گئے ہیں :’’ تدریب افتا کا نصاب اور معاصر تناظر‘‘ میں فاضل مؤلف نے فتوی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاہے کہ مفتی دراصل اپنی بات نہیں کہتا؛ بلکہ اللہ کی بات لوگوں کو بتاتا ہے اور اللہ کی جانب کسی بات کو منسوب کرنا بہت بڑی ذمہ داری ہے؛لہذا زمانےکے بدلتے احوال اور نئے نئے جنم لیتے تقاضوں کے پیشِ نظرایک مفتی کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھنا ضروری ہے؛کیوں کہ صحیح صورت حال سے واقفیت نہ ہونے کی بنا پر کوئی فتوی ناقابل فہم و عمل بن جاتا ہے اور پھر اس پر ذرائعِ ابلاغ میں متضاد بحث چھڑ جاتی ہے اور شریعت کی وہ تصویر سامنے نہیں آپاتی، جو انسانیت کے لئے سراپا رحمت ہے۔ ڈاکٹر صاحب چوں کہ خود مفتی بھی ہیں؛اس لئے انہوں نے اس مقالے میں فقہ و فتاوی کے تعلق سے کچھ مناسب تجاویز بھی پیش کی ہیں،جن میں فقہ مقارن کی تعلیم کا اہتمام اور اختصاص کا اہتمام خاص طور پر قابل ذکرہیں ۔ اختصاص کے حوالے سے آپ لکھتے ہیں کہ افتا اگرچہ خود فقہ اور فتوی نویسی کا اختصاص ہے، تا ہم افتا کے شعبوں میں داخل ہونے والے فضلا میں سے کچھ کو عائلی مسائل کے لئے مخصوص کیا جائے ، کچھ تجارتی معاملات اور اقتصادی امور سے متعلق مسائل پر توجہ دیں ، کچھ فضلا کو عبادات کی تفصیلات پر عبور ہو ، کچھ ایسے فضلا ہوں،جو سیاسیات ، بین الاقوامی تعلقات اور بین مذہبی معاشروں سے پیدا شدہ مسائل پر اختصاص پیداکریں ، نیزیہ بھی ضروری ہے کہ ہر اختصاص کے لئے باضابطہ نصاب ترتیب دیا جائے۔ اس کے بعد کا مقالہ’’ ملکی عدالتی نظام میں اسلامی قانون کی تفہیم‘‘ کے عنوان سے ہے،جس میں موجودہ عدالتی نظام اور اسلامی عدالتی نظام کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے ملک کے مسلم وکلاکو اسلامی عدالتی نظام ، خاص کر مسلمانوں کے عائلی نظام کی تفہیم کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس حوالے سے کچھ تجاویز پیش کئے گئے ہیں ۔اس کے بعد’’ مقاصد شریعت کی معنویت اور معاصر تدریس و تحقیق‘‘ ،’’ مدارس کی تعلیم اور اردو زبان‘‘ اور ’’ بدلتے عہد میں فارغین مدارس کا کردار‘‘ جیسے عناوین پر لکھے گئے مقالات شامل کتاب کئے گئے ہیں، جو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
چوتھا باب : عصری تعلیم ہے۔ اس باب میں چار مقالات ہیں: ’’فضلائے مدارس اور جدید تعلیم کی منصوبہ بندی ‘‘، ’’دینی مدارس کی تعلیم اور عصری تقاضے‘‘ ، ’’دینی تعلیم کے بعد عصری تعلیم : مشکلات اور مواقع‘‘ اور’’ عصری تعلیم کے نئے مضامین‘‘۔ ان مقالات میں مؤلف نے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید اور عصری تعلیم کی ضرورت پر روشنی ڈالی ہے اور عصری تعلیم کی طرف فضلائے مدارس کے بڑھتے رجحانات کو ایک خوش آئند پہلو قرار دیا ہے، ساتھ ہی فضلائے مدارس کے لئے عصری درس گاہوں میں داخلہ کے وقت نصاب کے فرق اور مدارس کی سند کی عصری درس گاہوں میں مماثلت کے حوالے سے جو دشواریں پیدا ہوتی ہیں ، ان کا بھی حل پیش کیاہے ۔
یہ کتاب دینی مدارس سے فارغ ہونے والے ہر اس شخص کو ضرور پڑھنا چاہئے، جو عصری تعلیم کے حصول کا ارادہ رکھتا ہو۔مؤلف کی یہ کتاب امت کے تعلق سے اور خاص طور پر فضلائے مدارس کے حوالے سے آپ کے اخلاص و درد مندی کی غماز اور آپ کی ژرف نگاہی و دوربینی کی شاہد ہے۔ یہ کتاب مدارس کے فضلا کے لئے ایک قیمتی و نایاب تحفہ ہے، نیز ان کو عصری درسگاہوں سے جوڑنے میں بریج کی حیثیت رکھتی ہے۔ فاضل مؤلف نے ان فضلائے مدارس پر، جو عصری تعلیم میں بھی آگے بڑھنا چاہتے ہیں ، جن کے اندر صلاحیت اور جوش و جذبہ ہے، مگر کسی کی صحیح رہنمائی حاصل نہیں ہے ، ساحل کا تماشائی بن کر ڈوبنے والوں کا نظارہ اور صرف افسوس کرنے کے بجائے ایسی جامع کتاب لکھ کر ان کی رہنمائی کی ہے ۔اللہ ان کو اس کا اجر عظیم عطا فرمائے اوراس کتاب کو طالبانِ علوم میں مقبولیت عطا فرمائے۔ آمین۔

You may also like

Leave a Comment