مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی ،سابق پرنسپل مدرسہ شمس الہدیٰ ،پٹنہ
اسلام ایک انقلابی مذہب ہے۔ اس نے انسانی معاشرہ کے ہر شعبہ میں جمود کو توڑکر انقلاب برپا کیا۔ خواہ وہ تہذیب وتمدن کا شعبہ ہو ،خواہ وہ اقتصادیات ،عمرانیات کا شعبہ ہو ۔خواہ وہ معیشت ومعاشرت کا شعبہ ہو ،خواہ وہ علوم وفنون کا شعبہ ہو۔
بعثت نبویؐ سے پہلے عرب میں تعلیم کا رواج بہت کم تھا ، چند آدمی تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے، مذہب اسلام کے پھیلتے ہی تعلیم کے شعبہ میں جو ترقی ہوئی ،تاریخ اس پر شاہد ہے۔ تعلیم کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں مسلمانوں نے کارہائے نمایاں انجام نہ دیا ہو۔
مسلمانوں میں حصول علم کا ذوق وشوق ابتداء ہی سے نظر آتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے خود طلب علم کی ترغیب دلائی اور صفہ قائم کرکے مدارس وحلقہ درس کے قیام کی روایت قائم کی۔
اسلامی حکومت کے قیام کے بعد مسلمان دنیاکے ہر گوشہ میں پھیل گئے ۔وقتی حالات و تقاضوں نے انہیں علم وتعلیم کے موضوع کو وسعت دینے پر بر انگیختہ کیا۔ چنانچہ مسلمانوں نے ان جملہ علوم وفنون کی جانب توجہ کی جن کی انہیں ضرورت محسوس ہوئی ۔ اب حلقہ درس ومدارس صرف قرآن وحدیث کی تعلیم ہی کے لئے نہیں رہے بلکہ ان میں فلسفہ ،تاریخ ،ریاضی ،اقلیدس ،طب اور دیگر علوم وفنون کی بھی تعلیم دی جانے لگی۔ چنانچہ ان سے جہاں تک قرآن ،حدیث ،فقہ وغیرہ علوم و فنون میں ماہر علماء ،محدث ،مفسراور فقیہ پیدا ہوئے ،وہیں بڑے بڑے فلسفی ،مورخ ،طبیب اور سائنسداں بھی پیدا ہوئے۔
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دینی علوم اور عصری علوم کی تفریق گیارہویں صدی ہجری تک نہیں تھی۔ بلکہ جملہ علوم وفنون کے لئے مراکز، مدارس یا اساتذہ کے حلقہ درس تھے، جن میں تمام علوم وفنون کی تعلیم دی جاتی تھی۔ عصری علوم وفنون کے لئے باضابطہ ادارہ کا وجود بہت بعد میں اور وہ بھی خال خال نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام کے حلقہ درس اور ان کے مدارس کے فارغین میں ہر طرح کے حضرات تھے۔ محدث، مفسر،فقیہ ،خطیب، مفتی ،قاضی ،مورخ، سائنسداں اور فلسفی ۔ غرض ہر طرح کے افراد اسی حلقہ درس ومدرسہ سے پیدا ہوئے۔مسلمانوں میں عبدالملک اصمعی،ابراہیم الفرازی، محمد الفرازی،جابر بن حیان ، الکندی، الرازی، الفرغابی، الفارابی، المسعودی ، الطبری ، ابوالقاسم الزہراوی، ابن یونس ،ابن اسحاق ، الکرخی ، البغدادی ، ابن خطیب ،خسن الرماح، ابن رشد ، ابن بیطار وغیرہ سائنسداں پیدا ہوئے۔ یہ سبھی حضرات قرآن وحدیث کے عالم بھی تھے اور علوم عصریہ کے ماہر بھی۔
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ گیارہویں صدی ہجری کے بعد علم کو دوخانوں میں تقسیم کردیا گیا۔ دینی علوم اور عصری علوم ۔ دینی علوم کے مراکز مدرسہ کے نام سے موسوم ہوئے اور عصری علوم کے مراکزکو اسکول ،کالج اور یونیورسیٹی کا نام دیا گیا۔ اس تقسیم نے مسلمانوں میں علم کی ترقی کے لئے راستہ محدود ومسدود کردیا۔ اس کے نتیجہ میں ہم ان ترقیوں سے محروم ہوگئے ،جس ترقی کا مظاہرہ ہم نے فلسفہ ، تاریخ، طب، سائنس اور دیگر علوم وفنون کے میدان میں کیاتھا۔ اس تقسیم کا سب سے بڑا خراب اثر یہ ہوا کہ علماء تو بہت پیدا ہوئے ،لیکن عالم سائنسداں ،عالم ریاضی داں ، عالم ماہر فلکیات اور عالم منجم نہیں پیدا ہوا۔ حالانکہ یہ سبھی علوم وفنون اپنی ترقی کے لئے حلقہ درس علماء اور مدارس ہی کے مرہون منت تھے۔
ہندوستان میں مغلیہ حکومت کے بعد انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی ۔ انگریز وں کے فتنہ کے سبب ہندوستان میں مدارس ومکاتب کے قیام پر زور دیا گیا۔ ۱۸۵۷ ء کے غدر میں ناکامی کے بعد علماء نے محسوس کیا کہ انگریز کا مقابلہ قیام مدارس ومکاتب ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔ چنانچہ علماء نے مسلمانوں کے سامنے قیام مدارس ومکاتب کی تجویز پیش کی ۔اس طرح ہزاروں مدارس ومکاتب قائم ہوئے۔
ابتداء میں مدارس کا نصاب تعلیم درس نظامی کے مطابق رکھا گیا ۔ پھر بہت سے حضرات نے وقتی حالات وضرورت کو محسوس کیا اور وقتی حالات وضرورت سے ہم آہنگ نصاب تعلیم پر زور دیا۔ چنانچہ دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کو بھی نصاب میں شامل کیا گیا۔
نصاب تعلیم میں عصری علوم کے شامل کرنے سے نصاب تعلیم میں تنوع پیداہوا اور یہ کو شش بہت حد تک کامیاب رہی۔
صوبہ بہار میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ ،پٹنہ کا قیام ۱۹۱۲ ء میں عمل میں آیا۔ اس مدرسہ کا نصاب تعلیم بھی ابتداء میں درس نظامی کے مطابق تھا۔ پھر اس کے نصاب تعلیم میں عصری علوم کو بھی شامل کیا گیااور اسی نصاب تعلیم کو بہار مدرسہ اکزامنیشن بورڈ میں نافذ کیا گیا۔ بہار مدرسہ ایکزامنیشن بور کو ترقی دے کر بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ بنایا گیا، تو اس کے نصاب تعلیم میں مزید عصری علوم کو شامل کیاگیا۔ اس مخلوط نصاب تعلیم کا خاطر خواہ نتیجہ سامنے آیا۔ چنانچہ اس مدرسہ سے جہاں عالم پیدا ہوئے وہیں علوم عصریہ کے ماہرین بھی پیدا ہوئے۔ اس کے فارغین میں عالم بھی ہیں اور آفیسر ،پروفیسر اور دانشور بھی۔ان میں بہت سے حضرات ایسے بھی ہیں جن میں وقت کے چیلنج کا صحیح جواب دینے کی صلاحیت موجود ہے۔
وقت تیزی سے بدل رہا ہے۔ علم وادب کے میدان میں تیز رفتاری سے ترقی ہورہی ہے۔ سائنس وٹکنالوجی کا تہذیب وتمدن پر تیزی سے اثر ہورہا ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ مدارس کے طلبہ بھی دینی تعلیم کے ساتھ وقت کے تقاضہ اور حالات سے پوری طرح باخبر ہوں۔ تاکہ ان میں مدافعت کی طاقت وقوت پیدا ہوسکے۔ اس لئے اس کی سخت ضرورت ہے کہ مدارس کے نصاب تعلیم کومزید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے ، مدارس کی اصلی ہےئت کو نقصان پہنچائے بغیر موجودہ نصاب تعلیم میں اس طرح ترمیم کی جائے کہ وہ عصری تقاضوں سے مزید ہم آہنگ ہوسکے۔
مدارس کے نصاب تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اس کے نصاب تعلیم میں سائنس کو شامل کرنا ضروری ہے۔
مدارس ملحقہ کے نصاب تعلیم میں صرف فوقانیہ تک سائنس سبجیکٹ کی حیثیت سے شامل ہے۔ فوقانیہ کے بعد مولوی سے فاضل تک سائنس کے مختلف مضامین کو نصاب تعلیم میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔
میری رائے ہے کہ فوقانیہ کے بعد جس طرح آرٹس کے مضامین نصاب تعلیم میں شامل ہیں،اسی طرح سائنس کے مضامین کو بھی شامل کیا جائے اور فوقانیہ کے بعد نصاب تعلیم کو اس طرح مرتب کیا جائے :مولوی آرٹس،مولوی سائنس ۔ عالم آرٹس ،عالم سائنس اور فاضل آرٹس ، فاضل سائنس ۔ نصاب تعلیم کو مرتب کرتے وقت دینیات وادب کے ضروری مضامین کے ساتھ سائنس کے مختلف مضامین کو اس طرح نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے کہ طلبہ اس کو برداشت کر سکیں۔ اور مولوی سائنس ،عالم سائنس اور فاضل سائنس ہمارے نصاب تعلیم میں شامل ہوجائے گا۔
سائنس کو مدارس کے نصاب میں شامل کرتے وقت اس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے کہ سائنس کی تعلیم کے لئے اعلیٰ ومعیاری مدارس کا انتخاب کیا جائے ۔ فی الحال ہر کمشنری میں ایک مدرسہ کو سائنس کے لئے نامزد کیا جائے۔ سائنس کے مضامین کو مدارس کے نصاب میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ سائنس مدرسہ کو سائنس کے لائق بنانا ضروری ہوگا۔ سائنس پڑھانے والے اساتذہ کی ضرورت ہوگی ۔لیباریٹری کا انتظا م کرنا پڑے گا۔ مدارس کے نظام کو چست ودرست بناے کی ضرورت ہوگی ۔ ان تمام کے لئے مدرسہ بورڈ کو متحرک وفعال رول ادا کرنا پڑے گا۔ اس میں مجلس منتظمہ اور عوام کے اشتراک کی بھی ضرورت ہوگی ۔ تب ہی سائنس مدرسہ ایک سائنس ادارہ کی حیثیت سے اہم خدمت انجام دے سکے گا۔
مدارس میں سائنس کی تعلیم ۔یہ ایک لمحہ فکر یہ ہے۔ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے کہ چشم زوں میں پورا ہوجائے ،لیکن اگر اس کو پورا کرنے کا عزم کرلیا جائے ،تو وہ مشکل بھی نہیں ہے۔
مجھے اس کا اقرار ہے کہ مدارس کے طلبہ کسی سے کم نہیں ہیں۔ اگر ان کے لئے مواقع فراہم کرائے جائیں تو یہ ہر میدان میںآگے بڑھ سکتے ہیں۔
سائنس کے مضامین کو نصاب تعلیم میں شامل کرنے سے مجھے کچھ ایسی خوش فہمی بھی نہیں ہے کہ تمام طلبہ سائنس کے اعلیٰ معیارپر پہنچ جائیں گے ۔ لیکن مجھے ایسی امید ضرور ہے کہ ان میں سے کچھ ضرور قابل قدر خدمات انجام دیں گے اور یہی ہمارے لئے قابل فخر سرما یہ ہوں گے۔ یہ عالم دین کے ساتھ سائنسداں بھی ہوں گے ،اور عالم دین کے ساتھ ماہر فلکیات بھی ہوں گے اور اس طرح مدارس اسلامیہ کا وقار مزید بلند ہوگا۔ سائنس وٹکنالوجی کا استعمال صحیح ہاتھوں میں ہوگا ، اس لئے ان کوکوئی غلط کام کے لئے استعمال نہیں کر سکے گا اور اس طرح پھر دنیا میں امن وسلامتی کا پیغام عام ہوسکے گا۔
(راشٹریہ سہارا ،دہلی)
(کتاب ’’مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی ‘‘سے ماخوذ)
مدارس اسلامیہ میں سائنس کی تعلیم
previous post