تحریر:لینامشرا
ترجمانی:نایاب حسن
27؍فروری2002ء کو سابرمتی ایکسپریس میں کارسیوکوں کے مارے جانے کا انتقام لینے کے لیے نروداپاٹیامیں 97؍مسلمانوں کومارنے کی خاطرجو آگ کوبھڑکائی گئی تھی،اس سے اٹھنے والے دھوئیں میں خود مایاکوڈنانی کی سانسیں بھی گھٹنے لگی تھیں۔فسادکے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندرمودی نے مختلف اہم فسادزدہ مقامات کا دورہ کیاتھا،ان میں نروداپاٹیابھی تھا اوراس وفد میں پولیس افسران کے ساتھ نروداکی ممبراسمبلی کوڈنانی بھی تھیں۔اس کے چھ سال بعد انھیں مسلمانوں کے خلاف بھیڑ کواکسانے کے جرم میں گرفتار کیاگیا ،پھرانھیں گجرات فسادات کے دوران ہونے والے دوسرے بڑے قتلِ عام کی ماسٹر مائنڈقراردے دیاگیا،اس طرح مایاکوڈنانی کے سیاسی عروج و زوال کی کہانی بڑی برق رفتاری کے ساتھ مختلف روپ اختیار کرتی رہی۔
نوے کی دہائی میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد گجرات میں کوڈنانی کی اٹھان ایک فائربرانڈسیاست داں کے طورپرہوئی،انھوں نے بی جے پی کی کارپوریٹررہتے ہوئے احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے ذریعے ایک مندر منہدم کیے جانے کے معاملے کو شدت سے اٹھایا اور سڑکوں پر اتر کراحتجاج درج کروایا،پھر جب وہ احمد آباد شہرکی بی جے پی یونٹ کی صدر تھیں،تو2005میں گجرات فسادات کی وجہ سے امریکہ کی جانب سے مودی کو ویزانہ ملنے پر برپا ہونے والے احتجاجات میں بھرپور حصہ لیا،کوڈنانی پیشے سے ڈاکٹر اور گائناکولوجسٹ تھیں؛چنانچہ مودی کی گجرات حکومت میں انھیں خواتین و اطفال کی ترقی و بہبود کی منسٹری دی گئی۔کوڈنانی ان خواتین میں سے تھیں،جوآرایس ایس اور مودی سے گہری قربت رکھتی تھیں،حتی کہ بی جے پی کے ایک حلقے میں ’’آبھاراما‘‘کی علامتی اصطلاح استعمال ہوتی تھی،جس سے مرادآنندی پٹیل،بھاؤنادیو،رامیلاڈیسائی اور مایاکوڈنانی تھیں۔
آنندی بین تو اب بھی مودی کی قریبی ہیں،مودی کے دہلی منتقل ہونے کے بعد گجرات کی وزیر اعلیٰ رہ چکی ہیں اوراب مدھیہ پردیش کی گورنر ہیں۔ دیو احمدآباد کی پہلی خاتون میئر تھیں اور بعدمیں لوک سبھاایم پی بھی بنیں اور اِس وقت وہ یونیورسٹی گرانڈ نرمان بورڈ،گجرات کی نائب صدر ہیں۔ڈیسائی جواحمدآبادضلع پنچایت کی صدرتھیں اور2002 ء میں اسمبلی الیکشن بھی لڑا تھا،انھیں 2005ء میں پارٹی سے ہی نکال دیاگیا،ان کا جرم یہ تھاکہ انھوں نے مودی پران کو قتل کروانے کی سازش رچنے کا الزام لگایاتھا،کوڈنانی نے بھی پہلی بار اسمبلی الیکشن2002 ء میں ہی لڑا تھا۔ایل کے آڈوانی کی تربیت یافتہ کوڈنانی نے 2002ء کے الیکشن میں گجرات فسادات کے بعد پیدا ہونے والی ہندوتوالہر کی بہ دولت غیر متوقع اکثریت سے جیت حاصل کی،2007میں انھیں مودی حکومت میں بہبودیِ خواتین و اطفال کی وزیر بنایاگیا،پھر ترقی دے کرہائرایجوکیشن منسٹری کا اضافی چارج بھی انھیں سونپ دیاگیا۔ جب انھیں نروداپاٹیاقتلِ عام کے معاملے میں اٹھائیس سال قید کی سزاسنائی گئی،توانھوں نے دفاع میں کہاکہ مجھے سیاسی سازش کا شکاربنایاگیا ہے اورٹرائل کورٹ میں اپیل بھی کی، جسے خارج کردیاگیا تھا۔
دوسری طرف قومی سیاست میں مودی کا قدروز بروز بلند ہوتا جارہاتھا،جب2010ء میں ایس آئی ٹی نے گجرات فسادات میں شمولیت سے متعلق ان سے پوچھ گچھ کی،توان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل پایا،2011ء میں سپریم کورٹ نے مرحوم احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کے الزام کا جائزہ لے کر فیصلہ سنانے کے لیے گجرات کے مجسٹریٹ کورٹ کو مکلف بنایا،پہلی بار ایسا ہواکہ کسی صوبے کے سٹنگ وزیر اعلیٰ سے فسادات میں ملوث ہونے کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی،اسی زمانے میں مودی نے کمال ہوشیاری سے36دنوں کی ’’سدبھاؤنامشن‘‘چلائی ،جس کا مقصداقلیتوں،بالخصوص مسلمانوں تک پہنچنا تھا، اس میں انھیں کامیابی بھی ملی اور نتیجتاً تمام الزامات میں کلین چٹ مل گئی۔
مودی کے لوک سبھا الیکشن لڑنے اور وزارت عظمیٰ کاامیدواربننے سے ٹھیک سال بھر پہلے گجرات حکومت نروداپاٹیاکیس میں دس لوگوں کو سزاے موت دلانے کی تیاری میں تھی،اس لسٹ میں کوڈنانی کابھی نام تھا،بی جے پی ایسا کرکے دراصل اپنے حق میں رائے عامہ ہموارکرنا چاہتی تھی؛حالاں کہ بعدمیںیہ منصوبہ مثبت قانونی رائے کے حصول کی خواہش میں بدل گیا۔
البتہ اندرونِ پارٹی امیت شاہ اور کوڈنانی کے ستارے موضوعِ بحث رہے،سی بی آئی نے تو امیت شاہ کوسہراب الدین فرضی انکاؤنٹرکا ماسٹر مائنڈ قرار دیا تھا، مگرپھر انھیں کلین چٹ مل گئی اورساتھ ہی بی جے پی کے قومی صدر بھی بنادیے گئے،گویاوہ بالکل دھل دھلاکرباہرآگئے۔
کوڈنانی کانام نروداکیس میں 2002ء میں ہی شامل کیاگیاتھا،2009ء میں سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل کردہ خصوصی تفتیشی ٹیم(ایس آئی ٹی)نے انھیں مفرورقراردے دیا،پھرانھیں اپنی وزارت سے استعفادے کر جیل جانا پڑا،اس طرح ان کے سیاسی اور پیشہ ورانہ؛ہردو کریئرپربریک لگ گیا۔کوڈنانی کو مجرم قراردیے جانے کے بعدان سے صرف آرایس ایس چیف موہن بھاگوت نے احمدآباد میں ایک بار ملاقات کی،جہاں وہ ایک سول ہسپتال میں زیر علاج تھیں۔
جب مودی نے مرکزمیں حکومت سنبھالنے کے بعدگجرات فسادکے اسیروں کے معاملے کوپسِ پشت ڈال دیا، تووی ایچ پی لیڈرپروین توگڑیا، جنھوں نے بڑی سیاسی آرزوئیں پال رکھی تھیں، انھیں مایوسی ہاتھ لگی اورانھوں نے مودی کے طرزِ عمل کو’’ہندووں کی شکست‘‘قراردیا، دوسری طرف پاٹیدارلیڈرہاردک پٹیل نے بھی اس نکتے پر خاص توجہ دی اور اس نے کہاکہ مودی نے گجرات فسادکے بعد ہندووں کوجیل میں ڈلوایا، گزشتہ سال اسمبلی الیکشن کی کمپیننگ کے دوران بھی انھوں نے پٹیلوں کے تعلق سے مودی کوگھیرا؛کیوں کہ آننداورمہسانہ ضلعوں سے فسادات کے کیسزمیں زیادہ ترپٹیل ہی پکڑے گئے تھے، بابوبجرنگی بھی پٹیل ہی ہے، جوکچھ کارہنے والاہے ۔
اس کانتیجہ بھی سامنے آیاکہ 2002میں ہندوتوالہرکی بدولت 127اسمبلی سیٹوں پرکامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی اب کی بار 182میں سے محض 99سیٹ حاصل کرسکی، اس میں پاٹیدارفیکٹرنے غیرمعمولی رول اداکیا؛کیوں کہ یہ گجرات میں مؤثرکردار رکھنے والی کسان برادری ہے۔
گزشتہ سال ہی کوڈنانی کوبھی اُس وقت امیدکی کرن نظرآنے لگی، جب امیت شاہ نے نروداگام کیس (جس میں گیارہ مسلمان مارے گئے تھے) میں ان کی طرف سے چشمِ دیدگواہ بننامنظورکرلیا، اس کیس میں کوڈنانی سمیت بابوبجرنگی، وی ایچ پی لیڈرجے دیپ پٹیل بھی کلیدی ملزم ہیں ، کوڈنانی نے شاہ سے درخواست کی تھی کہ وہ ان کے اس عذر /دلیل کادفاع کریں کہ 28فروری 2002کوجب سوسائٹی میں قتلِ عام ہوا، تووہ اس وقت موقع پرموجودنہیں تھیں؛ چنانچہ شاہ نے گزشتہ سال ستمبرمیں کورٹ میں گواہی دیتے ہوئے کہاکہ انھوں نے کوڈنانی کواُس دن گجرات اسمبلی میں سابرمتی سانحہ میں مرنے والوں کے لیے پیش کردہ تعزیتی تجویزکے دوران اسمبلی میں دیکھاتھا، اس کے بعدسولاکے سوِل ہسپتال میں دیکھا(پھراحمدآبادکے علاقے میں دیکھا) جہاں جلی ہوئی لاشیں لائی گئی تھیں، پھروہ (شاہ) اورکوڈنانی ہسپتال سے ساتھ ہی نکلے تھے ۔
ٹرائل کورٹ اس عذر کوقبول کرتاہے یانہیں، اس کاپتاہمیں چل جائے گا، مگرگجرات ہائی کورٹ نے اس پرجوتبصرہ کیاہے، وہ ممکن ہے اس کیس میں سند بن جائے، ٹرائل کورٹ نے کوڈنانی کاجرم ثابت کرنے کے لیے گواہوں کے بیانات کوبنیادبنایاتھا؛لہذاہائی کورٹ کاتبصرہ کوڈنانی کو شبہے کافائدہ دے سکتا ہے، یہ امر بھی قابلِ ذکرہے کہ اِس وقت گجرات فسادکے متاثرین کوانصاف دلانے کے لیے لڑنے والی سماجی کارکن تیستاسیتلواڑخودہی مختلف معاملوں میں مقدمات جھیل رہی ہیں ۔
نروداپاٹیاکی طویل کہانی کایہ اجمال ہے، جہاں رہنے والے چارفیصدمسلمانوں میں سے زیادہ ترکرناٹک سے تعلق رکھتے ہیں، کرناٹک، جہاں آیندہ چند ہفتوں کے اندراسمبلی الیکشن ہوناہے اوربی جے پی کے ایک ممبراسمبلی نے یہ کہہ کرماحول کوگرمادیاہے کہ یہ الیکشن ہندوبنام مسلمان ہے؍ہوگا۔
امیت شاہ اورکوڈنانی دونوں نے اپنے اپنے انتخابی حلقے میں غیرمتوقع اکثریت سے جیت درج کی تھی، دونوں ہی نشستیں آڈوانی کے پارلیمانی حلقہ گاندھی نگرسے تعلق رکھتی تھیں ، بی جے پی کوچوں کہ 2019 کے لیے ہندوتوالہرپیداکرنے کی ضرورت ہوگی اوراس کے لیے یقینی طورپراسے آرایس ایس کاتعاون چاہیے،جوکبھی کبھی مرکزی حکومت کی بعض پالیسیوں پرنقدبھی کرتارہتاہے ، ایسے میں کوڈنانی کی رہائی کو عام انتخابات سے قبل بحالیِ اعتماد کے عمل کے طور پر دیکھاجارہاہے؛بلکہ مکہ مسجددھماکہ کیس میں سوامی اسیمانندکی رہائی اورجج لویاکیس میں ملنے والی کلین چٹ کے ذریعے بھی بی جے پی کانگریس کے سامنے اپنادفاع کررہی ہے، جس نے ان معاملات میں بی جے پی پلس آرایس ایس پرسازش رچنے کاالزام لگایاتھا، یہ دورہائیاں اورایک کلین چٹ ہی 2019کے جنرل الیکشن میں کمپیننگ کی بنیادی تھیم بن سکتی ہیں ۔جبکہ دوسری طرف مؤاخذے اور اسیری کے دنوں میں خاموش رہنے کے عوض کوڈنانی کاسیاسی کریئرازسرِ نوشروع ہوسکتاہے اورسالِ رواں کے اختتام کے ساتھ یقینااگلے عام انتخابات کااسٹیج ہمارے سامنے سج چکاہوگا ۔
(اصل انگریزی مضمون21؍اپریل کوروزنامہ’’انڈین ایکسپریس” میں شائع ہواہے)