Home ستاروں کےدرمیاں ماسٹر محمد ضیاء الہدیٰ ضیاؔ رحمانی

ماسٹر محمد ضیاء الہدیٰ ضیاؔ رحمانی

by قندیل

 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

 نائب ناظم امارت شرعیہ بہار
میرے بڑے بھائی نیز میرے لڑکا محمد نظر الہدیٰ قاسمی اور لڑکی رضیہ عشرت کے چچا اور خسر محترم ماسٹر محمد ضیاء الہدیٰ ضیاء رحمانی کا ۲۸؍ جنوری ۲۰۱۸ء بروز اتوار ساڑھے بارہ بجے دن انتقال ہو گیا ، انہوں نے روزانہ کے معمول کے مطابق فجر کی نماز پڑھائی ، اشراق پڑھ کر مسجد سے نکلے، دس بجے صبح میں روز کی طرح اسکول گیے، گیارہ بجے تک انہوں نے کلاس لیا، اسکول پر ہی دل کا سخت دورہ پڑا ؛جو جان لیوا ثابت ہوا، کوئی ساڑھے بارہ بچے پرساد ہوسپیٹل برہم پورہ مظفر پور کے ڈاکٹروں نے ’’سوری‘‘ کہہ کر ان کی دنیاوی زندگی کے اختتام کا اعلان کر دیا، جس نے سنا حیرت میں ڈوب گیا ، بعضوں کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا ، چیخ وپکار اور رونے والوں میں ان کے اہل خانہ ہی نہیں، اسکول کے اساتذہ اور احباب ومتعلقین کی بھی بڑی تعداد تھی، ۲۹؍ جنوری ۲۰۱۸ء کو ساڑھے تین بجے شام میں عصر کے قبل جنازہ کی نماز ہوئی، ان کے صاحب زادہ میں لائق فائق مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری ہیں، وہ بھی حیدر آباد سے آگیے تھے، لیکن غم کا بوجھ شدید تھا، اس لیے میرے اصرار پر بھی وہ جنازہ پڑھانے پر آمادہ نہیں ہوئے تو بالآخر ٹوٹے ہوئے دل سے مجھے ہی یہ کام کرنا پڑا، جنازہ سے قبل عزیزم مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری نے چند کلمات کہے اس سے قبل بعد نماز ظہر مولانا مفتی محمد سہراب ندوی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ اور مولانا محمد انوار اللہ فلک صاحب بانی وناظم ادارہ سبیل الشریعہ آوا پور شاہ پور سیتا مڑھی نے تعزیتی موضوعات پر تفصیلی خطاب کیا، جس سے غمزدہ لوگوں کو تھوڑی ڈھارس بندھی، مولانا صوفی مختار الحق صاحب استاذ دار ارقم حاجی پور کی رقت آمیز دعا پر یہ تعزیتی مجلس اختتام پذیر ہوئی، تدفین مقامی قبرستان میں دادا دادی کی قبر کے قریب جانب مشرق ہوئی، آخری دیدار اور آخری سفر میں ویشالی ضلع کے مدارس واسکول کے ذمہ دار، اساتذہ ویشالی، ضلع میں اردو تحریک کے روح رواں ، علماء صلحاء ، صوفیا، دانشوران ، امارت شرعیہ کے ذمہ دار اور کارکنان نے شرکت کی فجزاھم اللہ خیرا کثیرا۔
بھیا ماسٹر محمد ضیاء الہدیٰ ضیا بن ماسٹر محمد نور الہدیٰ (م ۸؍ اگست ۲۰۱۷ء) بن محمد علی حسن (م ۲۵؍ اکتوبر ۱۹۶۶ء) بن محمد سخاوت حسین بن رجب علی ہم آٹھ بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، میری پیدائش اوران کی ولادت میں دو سال کا فاصلہ تھا ، ہم دونوں بھائیوں نے ابتدائی تعلیم کے مراحل گھر پر ہی طے کیے، میری استانی پھوپھی راشدہ خاتون تھیں اور بھیا کے استاذ چھوٹے ابا محمد نجم الہدیٰ نجم تھے، دونوں اپنے گھوڑوں کو ایک دوسرے سے آگے بڑھانا چاہتے تھے اور اس تصوراتی تیز رفتاری کا ساتھ نہ دینے پر ہم لوگوں کی شامت بھی آتی رہتی تھی، بھیا کی کم اور میری زیادہ ، گھر سے نکل کر ہم دونوں بھائی مڈل اسکول بکساما میں داخل ہوئے، وہ مجھ سے ایک درجہ اوپر تھے، بعد میں میری لائن چینج ہو ئی اور میرا رخ مدرسہ کی طرف ہو گیا ، بھیا وہیں پڑھتے رہے، اس زمانہ میں مڈل اسکول ساتواں تک ہوتا تھا اور اس کا بورڈ امتحان بھی ہوا کرتا تھا، ساتویں پاس کرنے کے بعد وہ آدرش ہائی اسکول سرائے ضلع ویشالی میں داخل ہو گیے، جہاں والد صاحب ان دنوں انگریزی اور تاریخ کے استاذ ہوا کرتے تھے، میٹرک کا امتحان یہیں سے پاس کرنے کے بعد لکچھمی ناراین کالج بھگوان پور ضلع ویشالی سے آئی اے نرسونارائن کالج سنگھاڑا ویشالی سے بی اے آنرس اور بہار یونیورسٹی مظفر پور سے ام اے تین سبجیکٹ اردو ، فارسی اور تاریخ میں کیا، ہندی ودیا پیٹھ دیو گھر سے ساہتیہ بھوشن ، ساہتیہ النکار، اور جامعہ اردو علی گڈھ ادیب ماہر اور ادیب کامل کی سند بھی ان کے پاس تھی، پرائمری ٹیچرس ٹرینگ سورہتھا بیلسر، ویشالی سے انہوں نے بی ٹی کیا، پی ایچ ڈی کے لیے ’’اردو نثر میں علماء بہار کی خدمات ۱۹۸۷ء تا حال پر پروفیسر متین احمد صبا صدر شعبہ فارسی بہار یونیورسٹی کی نگرانی میں مقالہ لکھا تھا، لیکن نگراں کی وفات کے بعد پی اچ ڈی کی سند کے لئے مقالہ تعطل کا شکار ہوا ، اور پھر بھیا کی دلچسپی اس کام سے باقی نہیں رہی، انہوں نے دس سے زائدریفشیر کو رس میں شرکت کی اور مضبوط حصہ داری نبھائی، ۲۰۰۴ء میں حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی۔
شادی ۲۵؍ جون ۱۹۷۶ء کو شمیمہ خاتون بنت عبد الرشید مرحوم بن عبد الستار مرحوم سے اس وقت کے اعتبار سے مروجہ مہر پندرہ سو روپے پر ہوئی تھی ، اللہ نے اس رشتہ میں بڑی برکت عطا کی ، گھر بھی مثالی رہا اور اللہ نے سات لڑکے اور چار لڑکیوں سے نوازا تین لڑکے الحمد للہ عالم با عمل ہیں، جن میں ان کے بڑے صاحب زادہ مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری کاعلمی دنیا میں ایک مقام ہے، پس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ گیارہ بچے بچیاں ہیں۔تین بچیوں کی شادی بھی انہوں نے عالم دین سے کی ، چوتھے داماد بھی متشرع ہیں ۔
تدریسی زندگی کا آغاز ۱۷؍ اگست ۱۹۸۱ء بروز سوموار اردو پرائمری اسکول سرمست پور انچل مہنار ضلع ویشالی سے کیا ، پوری مدت ملازمت میں ان کا تبادلہ پاتے پور بلا ک کے دو، ویشالی اور گرول کے ایک ایک اسکول میں ہوا، انتقال تک وہ اردو مڈل اسکول محمد پور کنگھٹی گرول بلا ک میں تدریسی فرائض انجام دے رہے تھے، جو ہمارے آبائی گاؤں حسن پور گنگھٹی ، بکساما ویشالی سے پورب ایک کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے، سبکدوشی میں ابھی دو سال باقی تھے کہ اللہ نے حیات مستعار سے سبکدوشی کا فیصلہ کر دیا، للہ ما اخذ ولہ ما اعطیٰ وکل شئی عندہ لاجل مسمیٰ
بھیا اور ہم ساتھ پلے، پڑھے، کھیلے، کودے، لیکن مجھے یاد نہیں کہ کسی موقع پر محبت واخوت کے رشتہ پر آنچ آئی ہو، یادل کے شیشے پر بال پڑا ہو،وہ مرنجا مرنج انسان تھے، حسد، کینہ بغض ونفرت سے کوسوں دور تھے، کسی بھائی کی کوئی ترقی ہوتی یا کوئی جائداد حاصل کرتا تو اس طرح خوش ہوتے جیسے یہ چیز خود انہوں نے حاصل کی ہو، دیکھنے کے لیے سفر کرتے ، خوشی کے اظہار کے جتنے طریقے انہیں معلوم تھے، سب کا استعمال کر ڈالتے، لوگوں سے ملتے وقت لب پر مسکراہٹ ہوتی جس سے ملنے والا ان سے قریب تر ہوجاتا، رخصت کرتے وقت سواری تک چڑھانے ضرور جاتے،مزاج میں انفعالیت تھی؛ اس لیے کسی واقعہ سے جلد متاثر ہوتے، رقیق القلب تھے؛ اس لیے آنکھوں سے جلد آنسوؤں کی برسات ہونے لگتی؛ اپنی دعاؤں میں وہ اس سے خوب کام لیتے اور فرماتے: میرے سارے کام دعاؤں ہی سے ہوتے ہیں، رمضان کا اعتکاف ، شش عید، محرم عرفہ اور شب برات کے نفل روزے خاص اہتمام سے رکھتے، اور نفلی نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام فرماتے ۔قرآن کریم کی تلاوت کا معمول روز کا تھا،فجر کی نماز کے بعد اشراق تک یہی ان کا مشغلہ تھا، بعض مخصوص سورتیں؛ سورۃ یٰسین ، سورۃ رحمان، سورۃ مزمل اور سورہ واقعہ روزانہ ہی پڑھتے، اس کے علاوہ کئی کئی پارے روز پڑھ لیتے اور رمضان میں کئی کئی ختم کر لیا کرتے، گاؤں میں مستقل امام نہیں ہوتا تو وہ چار وقت کی نماز ضرور پڑھاتے، عصر، مغرب، عشا اور فجر ، ظہر میں اسکول کا وقت ہوتا اس لیے وہ اپنی نماز وہیں ادا کیا کرتے، نماز سے خاص عشق تھا، نہ خود غفلت کرتے اور نہ دوسروں کی غفلت کے روادار ہوتے، حسب مقام ومرتبہ زجر وتوبیخ ، ڈانٹ ڈپٹ نہیں تو کم از کم اشارے کنایے میں اپنی بات کہہ جاتے۔عید کا چاند نکلنے کے بعد بھی ہم لوگوں کے کہنے سننے پر تھوڑی دیر کے لیے گھر آتے اور پھر مسجد چلے جاتے، فرماتے، لیلۃ الجائزہ سے محرومی بڑی محرومی ہوگی، شب قدر شب برات کے علاوہ لیلۃ الجائزۃ یعنی عید کی رات میں عبادت کا خاص اہتمام کرتے، انہوں نے اپنی زندگی کا تین ہدف مقرر کر رکھا تھا ، اللہ کی عبادت، درس وتدریس اور غریبوں کی مدد ، وہ اپنے اس ہدف سے پوری زندگی نہیں ہٹے، وہ اچھے انسان اور مکمل مسلمان تھے، شرک وبدعات سے الحمد للہ میرا گھرانہ شروع سے متنفر رہا ہے، وہ دینی معاملات میں پوری ندگی اسی ڈگر پر چلتے رہے، یہاں تک کہ اللہ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔
وہ انتقال سے دو دن قبل ۲۶؍ جنوری ۲۰۱۸ء کوسب بھائی اور ان کے بچوں سے ملنے کے لیے انہوں نے خصوصی وقت نکالا تھا، اور بڑا وقت دیاتھا، اس دن مل ملا کر وہ کوئی ڈھائی بجے رات گھر پہونچ پائے، ایک ماہ قبل خالہ زاد بھائی محمد شمیم صاحب چک چمیلی کا انتقال ہوا، تو فرمایا : بھائیوں میں ہاتھ لگ گیا ، اب میری ہی باری ہے، یہ جملے یقیناًموت کے خیال سے انہوں نے نہیں کہے ہوں گے، لیکن زبان پر جاری ہونے والے یہ کلمات من جانب اللہ تھے، جو اس بات کی غماز ی کر رہے تھے کہ سفر تمام ہونے والا ہے۔
اس خاندان کو سجانے ، سنوارنے، بنانے اور بچانے میں بھیا مرحوم اور بھابھی (اللہ انہیں صحت وعافیت کے ساتھ درازی عمر عطا فرمائے) کا بڑا ہاتھ رہا، ان کے ایثار وقربانی اور جذب�ۂ اخوت نے مختلف موقعوں سے اس خاندان کو شیشہ پلائی ہوئی دیوار بنا کر رکھا ، وہ کسی کا بُرا نہیں سوچتے تھے اور نہ بُرا کرتے تھے۔
۱۲؍ اگست ۱۹۷۸ء کو خانقاہ رحمانی مونگیر جاکر حضرت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ سے والد مرحوم کے ساتھ بیعت ہوئے تھے، حضرت کے بعد انہوں نے مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم کے دست مبارک پر تجدید بیعت کیا تھا، کئی سال کے بعد گذشتہ سال فاتحہ کی مجلس میں اپنے لڑکے اور داماد مولانا قمر عالم ندوی کے ساتھ شریک ہوئے تھے اور وہاں سے با فیض وبامراد واپس ہوئے تھے۔
ہمارا آبائی گاؤں انہیں کے دم قدم سے آباد تھا، ان کی مہمان نوازی ضرب المثل تھی ، دستر خوان بھی دل کی طرح وسیع تھا، جس میں بڑا ہاتھ ہماری بھابھی کا بھی رہا ہے، امارت شرعیہ کے میڈیکل کیمپ اور نور اردو لائبریری حسن پو گنگھٹی، بکساما، ویشالی کے پروگراموں کے اصل میزبان وہی ہواکرتے تھے، میرے بچوں کا وہاں رہنا نہیں ہوتا تھا، اس لیے سارا بوجھ وہی اٹھایا کرتے تھے، استقبال ، پروگرام کے انعقاد اور خورد ونوش کا بھی انتظام انہیں کے سر تھا۔ میرا کام صرف فون پر اطلاع دیدینا عموماً ہوا کرتا تھا، بھیا کی یادوں کو سمیٹنا آسان نہیں ہے۔
کبھی فرصت میں سن لینا ، بڑی ہے داستان میری

You may also like

Leave a Comment