Home ستاروں کےدرمیاں ماتم کدہ ہے کس لیے یہ بزمِ کائنات؟!

ماتم کدہ ہے کس لیے یہ بزمِ کائنات؟!

by قندیل


محمدانس عباد صدیقی قاسمی
حال مقیم سعودی عرب
حضرت خطیب الاسلام مولانامحمدسالم قاسمی رحمہ اللہ آخر کار اس دنیا کو الوداع کہ کر رخصت ہو ہی گئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ یقین جانیے ایک قرن چل بسا۔ ایک صدی گزرگئی۔ بساط انسانیت کی ایک تاریخ لپٹ گئی۔ تہذیب انسانیت کی وہ عطربیز دنیا ہم سے منہ موڑ گئی جس کی بھینی بھینی خوشبؤں سے علم حدیث،علم تفسیر، علم کلام، علم بلاغت؛ بلکہ چمنِ انسانیت کی ہرکلی شاداب اور خوشبودار تھی۔
حضرت خطیب الاسلام صرف محدث ہی نہیں، ثقہ راوی بھی تھے، روات حدیث کی جان تھے، علم حدیث کی تمام تر خصوصیات کو حضرت کے وجود پہ افتخار تھا، علم تفسیر کے تمام تر کمالات حضرت کی بابرکت اور محتاط حیات پہ رشک کناں تھے، سچ تو یہی ہے کہ حضرت خطیب الاسلام علوم قاسمی کے آخری ترجمان تھے۔ خاندان قاسمی اور منتسبین قاسمیت کی آبروتھے،وہ کیا گئے کہ فکرقاسمیت افسرہ ہو کر رہ گئی۔ سامراجی دور کا وہ ہندوستان یاد کیجئے جب ملک کی فضا میں ارتداد کا زہر پھیل رہاتھا۔ متحدہ ہندوستان کا چپہ چپہ انگریزی قہروبربریت سے خون آلودبناہواتھا۔ انگریز اپنے عزائم میں بڑی برق رفتاری کے ساتھ کامیاب ہوتے جارہے تھے، بلکہ اسلام کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کی تیاری تھی، اس وقت دیوبند کی خاک سے نانوتہ کا ایک سپوت بیدار ہوتاہے اورایک دینی مدرسہ کی بنیاد رکھ کر اسلام کے قدیم تمدن، مذہبی شناخت اور دینی شعور کے احیا کے لئے کمربستہ ہوجاتاہے، جسے دنیا مولانامحمدقاسم نانوتوی کے نام سے جانتی ہے۔ جن کی طرف نسبت ہر عالم کاخواب اور ہرذی فہم کی تمنا ہوتی ہے۔ آج اسی کا حقیقی وارث جس کے احسان تلے ہندوستانی ثقافت، ہندوستانی روایت دبی ہے وہ چل بسا۔ اگر نانوتوی نہ ہوتے تو اسلامی مدارس کو شوکت وشان نصیب نہ ہوپاتی؛بلکہ ہندوستانی مسلمان دوبارہ سنبھل نہ پاتے۔آج اس روایت کا آخری پاسبان چل بسا۔
مولانا محمد سالم قاسمی کا سراپا:
چہرہ بیضوی،حسن کا آبشار، غازہ بھری ہوئی پیشانی، چمکتی ہوئی آنکھیں، کشادہ لب، عقابی نگاہیں، ہمہ وقت رکوع کرتی ہوئیں، اگر اوپرکو ہوتیں تو ایسا محسوس ہوتا کہ کائنات تھم سی گئی ہے،ناک کھڑی، ڈاڑھی گھنی، قد میانہ، جب رفتار بھرتے تو ایسا محسوس ہوتا زمین اپنا سینہ کھول کر سلام پیش کررہی ہے، سبک رفتار، دھیما قدم جب زمین پر پڑتا تو ذرہ ذرہ مسرت سے نہال ہوجاتا، جسم معتدل،سر گول دائرہ نما، اس پہ دوپلی ٹوپی جیسے سرپہ تاج وقار ہو، آنکھ میں چمکدار عینک، جی چاہتا دیکھتے رہیں، باربار دیکھیں ـ
تدریسی امتیازات:
جب آپ دارالحدیث تشریف لاتے تو دارالحدیث کا منظر دیدنی ہوتا، آپ مسند حدیث پہ رونق افروز ہوتے تو جمال وجلال کی تمام تر کیفیات آپ کے ہرسو نظر آتیں۔ آپ کی ر س گھولتی ہوئی آوازسے طلبہ اپنے جان ودل کو نہلاتے۔ آپ کے علمی بحر اور فنی تعمق سے اپنی تشنگی بجھاتے۔ آپ کی زبان میں حلاوت کے ساتھ بے پناہ سلاست بھی ہوتی۔ آپ جب بولتے تو سبک رفتاری کے ساتھ بولتے چلے جاتے۔ نہ زور سے کھنکھارتے۔ نہ آوازبہت بلندکرتے نہ بہت آہستہ بولتے۔ یقین جانئے اندازتکلم کو آپ کی قوت گویائی پہ فخر تھا۔ اسباق کیاہوتے روایت ودرایت کی مبسوط شرح۔ فن اسماء الرجال کی گتھیوں پہ مفصل گفتگو۔ عبارت کی مختصر توضیح۔ سیاق وسباق کی مکمل تشریح، علم ومطالعے کی گہرائی دوران درس خوب اجاگر ہوتی۔تحقیق وتدقیق روشنی بکھیرتی،شرافت وادب اور اخلاق وحلم وکرم اپنی پاکیزگی کے زمزمے لٹاتے۔ طلبہ بصدشوق حاضرباشی کے ساتھ کتاب ومعلم کتاب کی روحانیت وعبقریت سے اپنی بساط کے مطابق دامن مراد کو بھرتے۔
خطیبِ باکمال:
آپ خطیب بھے تھے۔ کہنہ مشق خطیب۔ قادرالکلام خطیب۔ مخلص خطیب۔ اپنی خطابت میں علم وفن کا وہ عمیق بحرذخار لئے ہوتے کہ سامعین گوش برآوازہوتے۔لعل وگہر اور صدف چنتے چنتے بھٹکے ہوئے آہو سوئے حرم جانے پر مجبور ہوجاتے۔ آپ آبروئے خطابت تھے۔ زبان شگفتہ وشستہ۔ بیان مدلل ومبرہن۔ ہر موضوع کا حق اداکرتے۔
تصنیفی صلاحیت:
آپ مصنف بھی تھے۔ ادیب بھی تھے۔ انشاء پرداز بھی تھے۔ تحریر میں بلاکی روانی۔ جملے اور تراکیب انتہائی ہلکے پھلکے، لیکن مطلب خیز۔ آپ کی تصنیف کردہ کتابیں اور مضامین ان خوبیوں پر شاہد ہیں۔
چنداہم خصوصیات:
سب سے بڑھ کر آپ مومن کامل تھے۔ سرخیل علماء تھے۔ اکابر کی شان تھے۔ اسلاف کی روایت کے پاسبان تھے۔ مربی کامل تھے۔ حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی کے علوم وافکار کے وارث تھے۔ مولانا حافظ احمد رحمہ اللہ دادا جان کے کمالات کے محافظ تھے۔ جداعلی حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے فلسفیانہ مزاج، محققانہ بصیرت کے امین تھے،شان دیویند تھے، دارالعلوم دیوبند کی عظمت کے امین تھے، وقف دارالعلوم کے مؤسس ومنتظم اور مہتمم تھے۔
آپ پینتس سال دارالعلوم کےباوقار مدرس رہے۔ ابتدا سے دورہ حدیث شریف تک کی کتابیں پڑھائیں۔ بیحد مقبول مدرس تھے۔ طلبہ آپ پہ جانیں نچھاور کرتے۔ آپ کی کشادہ ظرفی،حلم وبردباری،تواضع وانکساری اورشرافت وپاکبازی کی دھوم دارالعلوم کی فضاؤں میں تھی،اس درمیان آپ صرف درسیات سے دل چسپی رکھتے۔ انتظامات کے ہجوم میں پڑنے سے خود کو بہت حدتک دور رکھتے۔ کوئی خواہش کی اور نہ ہی کوششں، اجلاس صد سالہ کی کامیابی میں آپ کا بہت اہم رول رہا، جسے کچھ لوگ ہضم نہیں کرسکے اور ایک عظیم انقلاب رونما کرگئے،اسی درمیان آپ کا ایک بڑے سانحے سے بھی گزرہوا،سانحہ ایسا کہ ہرطرف دشنام طرازیاں تھیں،مخالفت کی آندھیاں دستارو جبے کو اڑارہی تھیں،عناد کی ایسی کھائی تھی کہ اس میں بڑے بڑے صاحب تسبیح لڑھک رہے تھے، دیوبند کا ماحول بری طرح مخالفتوں اور مخاصمتوں کی نذر ہوچکاتھا،تحریک قاسمیت کو دفن کرنے کی پوری تیاری ہوچکی تھی۔ فکرنانوتوی کو قصۂ پارینہ بنادینے کے لئے پوری زور آزمائی چل رہی تھی۔ ایسے پرسوز اور صبرآزما حالات میں خانوادہ قاسمی پوری طرح ثابت قدم رہا۔ صبر واستغناکے دامن کو تھامے رہا۔ اسلاف کی روحانی وعرفانی امانت کا سلسلہ بند نہیں ہونے دیا۔ بڑی مفلسی وغربت کے عالم میں تعلیم وتربیت کا سلسلہ جاری رہا۔ نانوتوی تحریک کو اپنے سینے سے منتقل کرنے کے لئے کمربستگی دکھائی۔ بغیر شکوے اور جوابی حملے کے مستانہ وار آگے بڑھتے رہے اور دنیاکو یہ ماننے پر مجبور ہونا پڑا کہ خاندان قاسمی کا یہ شب ماہتاب رات کی قہرآلود تاریکیوں میں بھی ضیاپاشی کرتا رہا۔ تاریکی کے سناٹوں سے خائف نہ ہوا۔ نہ سہما اور ناہی قدم میں ارتعاش پیدا ہونے دیا۔ زبان پہ کوئی حرف شکایت نہ رہا اور ناہی جواب دینے کو ضروری سمجھا۔ وہ چراغ ابتدا میں ٹمٹمایا۔ اس پر دھول پھینکی گئی۔ پھونکیں ماری گئیں؛لیکن جس کے ہاتھوں میں چراغ تھا وہ مخلص درویش تھے اورمستند خاندان کے باوقار عالم ربانی تھے۔ ملت کی غم خواری ان کے خاندان کی شناخت تھی۔ اس چراغ کو ایسا آفتاب بنایا کہ اس کی روشنی عالم تاب ہے، وہ وقف دارالعلوم ہے، سچ تو یہ ہے کہ وقف دارالعلوم آج واقعی یتیم ہوگیاہے، ہرطرف غم والم ہے۔ دردوکرب ہے آہ وفغاں ہے۔ حسرت ویاس ہے۔ جدائی کا صدمہ ہے۔ اپنے مربی کی رخصتی کا حزن ہےـ
حضرت خطیب الاسلام رحمہ اللہ نے واقعی اہتمام کا حق ادا کردیا۔ انتہائی قلیل عرصے میں مخالفتوں کے درمیان بے سروسامانی کے عالم میں فکر قاسمی کے اس ادارے کو عالمی شہرت عطاکی۔ آج وہ ایک عظیم الشان دینی قلعہ ہے۔ اس علمی وعرفانی قاسمی قلعے پر قوم کو اعتبار ہے اور ملت کو اس کے وجود پہ فخرہے۔
2005 عیسوی میں حضرت نے بڑی دریادلی کا مظاہرہ کیا۔ قدیم تلخ یادوں کو بھلانے کیلئے اختلاف کی خلیج پاٹنے کیلئے نئی نسل کے لئے نشان راہ اور چراغ شاہراہ چھوڑنا چاہتے تھے سووہ کرگئے۔ پہل کی،ساری شکایتں ختم ہوگئیں۔ فدائے ملت کو فون کیا کہ طبیعت کیسی ہے فدائے ملت علیہ الرحمہ کو یقین نہیں ہورہاتھا کہ یہ فون کرنے والا روایت قاسمی کا سرخیل مولانا محمد سالم ہے،یہی وجہ ہے کہ حضرت فدائے ملت سفر سے واپسی پہ پہلے آستانۂ قاسمی پر تشریف لے گئے۔ماضی کی ساری شکایتیں ختم ہوگئیں، رشتے پھر سے استوار ہوئے، قربت کا پل بنا، اساتذۂ دارالعلوم کی دعوت ہوئی اور وقف دارالعلوم کے مدرسین بھی دعوت میں مدعو ہوئے،دیوبند میں جشن کا سماں تھا،بندہ اسی سال دورۂ حدیث شریف کا طالب علم تھا۔ احقر اس سارے واقعہ کا چشم دید گواہ ہے۔ دیوبند کے ہر فرد نے حضرت خطیب الاسلام کے اس کریمانہ پہل کو سلام پیش کیا۔ ان کی شرافت وخودداری کو سراہاگیا۔ واقعی وہ دن ہم وابستگان دیوبند کےلئے یوم عید تھا۔ سچ جانئے تو خوشی ومسرت سے آنکھیں بہ رہی تھیں۔ اپنے دونوں بزرگوں کی عظمتوں سے ہم مالا مال ہورہے تھے۔ حضرت فدائے ملت ایک سال بعد ہی ہم سے رخصت ہوچلے۔ اب کئی سال بعد خطیب الاسلام رحمہ اللہ نے بھی جدائی کا زخم دے دیا۔ رحمہ اللہ رحمة واسعة،
ہمارے بزرگوں کی یہ ادائیں تاریخ کا حصہ بنیں گی۔ خصوصا خطیب الاسلام رحمہ اللہ اس معاملے میں فاتح زمانہ رہے۔
حضرت خطیب الاسلام کی حیات کا مطالعہ کیجئے۔ آپ کی زندگی کا ورق ورق روشن ملے گا،بے داغ ملے گا۔ اللہ تعالی حضرت کے درجات بلند فرمائے (آمین)

You may also like

Leave a Comment