Home نظم لیکن اک ننھی سی تتلی

لیکن اک ننھی سی تتلی

by قندیل


ڈاکٹرابوبکرعباد
اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ ارود
دہلی یونیورسٹی
پھول سے بچے کھیل رہے تھے
گھر آنگن اسکولوں میں
بازاروں میں چہل پہل تھی
رواں دواں تھی خون کی صورت
دست و پا ذہنوںکی قوت
دفتر صنعت گاہوں میں
کھیتوں کی اونچی فصلوں اور
رنگ برنگے گلوں پہ تتلی
ناچ رہی تھیں
چہک رہے تھے شاخوں پر خوش رنگ طیور
چنچل شوخ ہوائیں آکر
معشوقوں کو چھیڑ رہی تھیں
ہر سو خوشیاں مسکانیںتھیں
چہروں پہ شادابی تھی
شور کا سناٹا جو گونجا
چشم زدن میں
لمحے بھر میں
سارا منظر بدل گیا
لہو میں لت پت پھول سے بچے
تتلی اور خوش رنگ طیور
مرد و عورت،شاداں چہرے
دفتر ، صنعت گاہوں کے
کٹی جلی لاشیں ہیں سب
آہن کے بد شکل پرندے
آفت و غم کی بارش کر کے
شہر طرب سے جا بھی چکے ہیں
سارا خطہ اجڑا بنجر
قریہ قریہ ویراں ہے
لیکن گھاس کی کونپل اوپر
بیٹھی اک ننھی سی تتلی
پھول کی آمد دیکھ رہی ہے

You may also like

Leave a Comment