تزئین حسن
اگر لکھنا آپ کا پیشہ ہے یا آپ شوقیہ لکھتے ہیں تو کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوتا ہےکہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے یا برتن دھوتے ہوئے آپ کا دماغ آئیڈیاز سے پک رہا ہو مگر جیسے ہی آپ لکھنے کا ارادہ کریں تو وہی دماغ امتحان کی تیاری کرنے والے بچے کی طرح فرار حاصل کرنے کی کوشش کرے؟ آپ کو وارڈروب کی صفائی یاد آ جائے یا کسی بہت عزیز رشتے دار یا دوست کو فون کرنا یا اور کچھ نہیں تو فیس بک یا واٹس ایپ کے میسجز چیک کرنا زیادہ اہم محسوس ہو؟ یا آپ بوریت محسوس کریں اور ذہن خالی ہو جائے؟ یا پھر لکھنے سے بچنے کے لیے آپ مزید ریسرچ کرنا شروع کریں اور آپ کی معلومات تو بہت بڑھ جائیں مگر ذہن پراگندہ ہو جائے اور لکھنے کا کام التوا میں پڑ جائے؟
لکھنے میں سستی ایک ایسا عمل ہے کہ شاید ہی کوئی لکھنے والا اس سے بچا ہوا ہو. بعض اوقات ہم مہینوں بلکہ سالوں آئیڈیاز ذہن میں رکھ کر لکھنے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں اور وقت اور مواد ہونے کے باوجود سستی کی وجہ سے ایک مضمون بھی لکھنے میں بھی کامیاب نہیں ہوتے. انگریزی زبان میں ایک لکھاری کی ایسی کیفیت کو جو لکھنے کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو، ”رائٹرز بلاک“ کہا جاتا ہے. رائٹرز بلاک ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں لکھاری تخلیقی تعطل یا سست روی کا شکار ہو جاتا ہے. اور یوں لکھنے کا عمل عارضی یا مستقل طور پر رک جاتا ہے.
آئیے جائزہ لیں کہ رائٹرز بلاک کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں اور ان پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟ لکھنے میں رکاوٹ ڈالنے والے عمومی وجوہات میں وقت کی کمی، سستی، ہمارا منظم نہ ہونا سرفہرست ہیں. کبھی کبھی یہ احساس کہ ہم جو لکھ رہے ہیں وہ معیاری نہیں، بھی ہمیں مایوس کر دیتا ہے، اور ہم لکھنا چھوڑ دیتے ہیں یا اسے ملتوی کر دیتے ہیں.
اس سلسلے میں ہم سب متفقہ طور پر جس مسئلہ کا شکار ہیں، وہ ہے وقت کی کمی،واقعی آج کی مصروف زندگی میں لکھنا کسی فارغ بندے کا کام لگتا ہے، جسے دنیا میں کوئی اور کام نہ ہو، مگر کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر کتنا وقت گزارتے ہیں؟ کبھی کبھی فیس بک کی ایک پوسٹ پر بحث میں گھنٹے سے زیادہ لگا دیتے ہیں لیکن دلائل کے بےترتیب ہونے کی وجہ سے دوسرے کو قائل نہیں کر پاتے. یاد رکھیں کہ فیس بک پر آپ کتنی ہی مدلل بات کریں، اس کی پوسٹ کا دورانیہ دو چار دن سے زیادہ نہیں ہوتا، اس کے بجائے اگر اسی موضوع پر تھوڑا سا وقت لگا کر آؤٹ لائن بنا لی جائے، دلائل کو ترتیب دے لیا جائے اور بلاگ پوسٹ کی شکل میں اسے شئیر کیا جائے تو نہ صرف اس کی افادیت بڑھ جاتی ہے بلکہ آپ وقتاً فوقتاً اسی موضوع پر مزید کام کر کے اسے کسی اچھے جریدے میں شائع کروا کے بہت بڑی تعداد میں لوگوں تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں.
سوشل میڈیا کا ضرورت سے زیادہ استمعال وقت کی کمی کی ایک بڑی وجہ ہے مگر روز مرہ کے اوقات کا جائزہ لیں تو ہم اور وجوہات کا بھی تعین کر سکتے ہیں. اگر وقت کی کمی واقعی مسئلہ ہے تو اپنے روزمرہ کے کاموں کی لسٹ بنائیں اور خود فیصلہ کریں کہ اپنا وقت جن سرگرمیوں میں لگایا، ان میں سے کتنی مفید یا کارآمد تھیں اور کتنی بےفائدہ اور بےکار۔ روز رات کو اس لسٹ کا جائزہ لے کر آہستہ آہستہ فضولیات کو اپنی زندگی سے کم کریں. یاد رہے بعض اوقات ہم تفریح اور علم کے حصول کو بےکار سرگرمی شمار کرتے ہیں مگر اگر یہ ایک حد کے اندر ہیں تو یہ ہمارے تخلیقی کام میں معاون ہوتی ہیں. ہمارا دین ہمیں اعتدال کی تعلیم دیتا ہے، چاہے وہ عبادات ہوں یا دنیوی تفریح. مگر انٹرنیٹ کے اس دور میں خالی از ذہنی کے ساتھ ویب پیجز کی ورق گردانی بھی مفید ہونے کے بجائے ہمارے وقت کے ایک بڑے حصے کو کھا جاتی ہے. اللہ سے یہ دعا ضرور کریں کہ وہ علم نافع دے اور اوقات میں برکت دے مگر خود اپنا احتساب بہت ضروری ہے.
خود احتسابی کے ساتھ سستی سے بچنے کا ایک اچھا نسخہ پلاننگ ہے،روز رات کو ان موضوعات کی لسٹ بنائیں جن پر لکھنا چاہتے ہیں تاکہ دوسرے دن جب لکھنے بیٹھیں تو نئے سرے سے کام شروع نہ کرنا پڑے، اگر موبائل یا کمپوٹر پر نوٹس لینے کی عادت ہے تو جو خیالات کسی موضوع سے متعلق ذہن میں آئیں انھیں اپنے آپ کو ای میل کر دیں یا نوٹ پیڈ پر نوٹ کر لیں،فارغ وقت میں اس پر سوچ بچار کرتے رہیں. جسمانی محنت کے کاموں کے دوران مثلاً ورزش، گھر کے کام کاج یا ڈرائیونگ کے دوران کبھی کبھی ہاتھ مصروف ہوتے ہیں مگر ذہن نسبتاً فارغ. ایسے مواقع سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے منتخب موضوع پر مزید سوچ بچار کریں. اپنے کسی ہم خیال دوست یا گھر کے کسی فرد سے بھی موضوع پر مزید بات چیت کی جا سکتی ہے.
سستی سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جو کچھ پہلے لکھا ہے اسے بار بار پڑھیں. یہ آپ کی تحریر کو نکھارنے اور غلطیاں حذف کرنے کا ذریعہ بھی بنے گا اور تحریر کو مزید ترتیب بھی دے گا. معروف مصنف ارنسٹ ہیمنگوے اپنے زیر تحریر ناول یا افسانوں کو روز پڑھتا تھا، اور ساتھ ساتھ اپنی تحریر کی نوک پلک بھی سنوارتا جاتا تھا. یہ چیز سستی کو ختم کرنے کے ساتھ منظم ہونے میں بھی بہت معاون ثابت ہوتی ہے. یاد رہے وہ کاغذ اور قلم کے علاوہ ٹائپ رائٹر استمعال کرتا تھا جس میں تبدیلی کی صورت میں پرانے ڈرافٹ کو تلف کرنا پڑتا تھا. آج ہم ایک ہی ڈرافٹ کو بغیر تلف کیے سیکڑوں مرتبہ تبدیل کر سکتے ہیں.
اپنے آپ کو منظم کرنے کے لیے کسی نوٹ بک یا سافٹ ویئر مثلاً ای میل یا کسی موبائل ایپلیکیشن پر مسلسل نوٹس لینے کی عادت ڈالیں. مثلا ً کوئی نیا موضوع ذہن میں آیا تو لکھ لیا. فارغ وقت میں ان موضوعات کو کھول کر ان کی آؤٹ لائن بنا لیں یا مزید اضافہ کر لیں، اس موضوع سے متعلق کوئی مشاہدہ یا مواد مزید کہیں نظر آئے تو اس کا ریفرنس نوٹ کر لیں،اگر ویب پر ہے تو اس کا لنک محفوظ کر لیں. اس طرح اگر فوری کسی موضوع پر کام کرنے کا وقت نہیں بھی ہے تو جب موقع ملے اس پر کام کا آغاز کیا جا سکتا ہے. ہم ذاتی طور پر اپنے جی میل اکاؤنٹ کو نوٹ بک کی طرح استعمال کے عادی ہیں، اگر سبجیکٹ لائن کا انتخاب سمجھداری کے ساتھ کیا جائے تو مستقبل میں سالوں بعد بھی اسے سرچ کرنا آسان ہو جاتا ہے.
تخلیقی صلاحیت کے ساتھ ساتھ ایک لکھاری کا بہت بڑا سرمایہ اس کا تنقیدی ذہن ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی یہی خوبی اس کے کام میں رکاوٹ بنتی ہے،جب یہ احساس ہمیں آگے لکھنے سے روکتا ہے کہ ہم اچھا نہیں لکھ رہے اور لکھنے کے دوران اپنے کام پر تنقید مایوسی کا باعث بن جاتی ہے، خصوصاً نئے لکھنے والے کو یہ احساس بہت تنگ کرتا ہے.
اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ پہلا ڈرافٹ لکھتے وقت اس احساس کو کہ ہم اچھا نہیں لکھ رہے، نظرانداز کر دیں. اپنے کام پر تنقید کو عارضی طور پر پس پشت ڈال دیں، آوٹ لائن بنا کر مضمون یا کہانی پورا کرنے کی کوشش کریں. اپنے آپ کو یقین دلائیں کہ ایک دفعہ مضمون پورا ہونے کے بعد اس میں بہتری کے ہزار مواقع ملیں گے. لیکن اگر تنقید کی وجہ سے اسے ادھورا چھوڑ دیا تو ساری محنت بےکار ہو جائے گی. ایک اور طریقہ یہ ہے کے اپنے آپ کو یقین دلائیں کہ برا لکھے بغیر اچھا نہیں لکھا جا سکتا اور یہی حقیقت بھی ہے. بعض اوقات برمحل لفظ ذہن میں نہیں آ رہے ہوتے یا اردو لکھتے وقت انگریزی کے لفظ جملہ مکمل کر رہے ہوتے ہیں. کوئی بات نہیں. آپ پوری توجہ اپنا متن مکمل کرنے اور اپنے ذہن میں آنے والے تخلیقی خیالات کو کاغذ یا سافٹ وئیر ایڈیٹر پر منتقل کریں، الفاظ کے متبادل ڈھونڈنے کے مواقع ایڈیٹنگ کے دوران بہت ملیں گے مگر جو تخلیقی خیالات آپ کے ذہن میں آ رہے ہیں، ان کے بہاؤ کو نہ روکیں. جب آپ کا مضمون آغاز سے اختتام تک مکمل ہو جائے جسے انگریزی میں اسٹوری یا narrative کہا جاتا ہے توایڈیٹنگ کا مرحلہ آتا ہے اور تنقید کا کردار شروع ہوتا ہے.
بعض اوقات ہم معیاری اور اچھے کام کے لیے ریسرچ کی کمی کو بہانہ بنا کر لکھنے کو مؤخر کرتے رہتے ہیں. اور انٹرنیٹ اور ڈس انفارمیشن کے دور میں ضرورت سے زیادہ تحقیق کو سمیٹنا مشکل ہو جاتا ہے. لکھنے سے پہلے اپنے ہدف کا تعین کریں اور موضوع کا خلاصہ ایک یا دو جملوں میں اپنے سامنے رکھیں. ویب پیجز کی ورق گردانی میں focused رہنا آسان کام نہیں. کبھی کبھی زیادہ ریسرچ آپ کو مقصد سے دور بھی لے جاتی ہے. بس اپنے مضمون کے سکوپ کو یاد رکھیں کہ آپ اخبار کا اداریہ لکھ رہے ہیں یا ریسرچ پیپر تاکہ ریسرچ کی مقدار کا تعین کرنا آسان ہو.
لکھنے میں تسلسل کی عادت بھی رائٹرز بلاک سے بچنے میں آپ کی مدد کرے گی. تھوڑا لکھیں لیکن روز لکھیں. پیارے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے اسوے اور اقوال سے ہمیں کاموں کو ایک تسلسل کے ساتھ کرنے کی ہدایت ملتی ہے، چاہے وہ چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، کہ بہترین عمل وہ ہیں جو مداومت کے ساتھ کیے جائیں چاہے کم ہی کیوں نہ ہوں(ابن ماجہ 4240)
یاد رہے کہ اگر آپ لکھنا چاہتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ آپ میں تخلیقی کام کی صلاحیت ہے تو آپ کو اس کے لیے با قاعدہ پلاننگ کرنی ہوگی اور اپنے اوقات سے ایک ایک کر کے غیر مفید سرگرمیوں کو چھانٹ کر الگ کرنا ہوگا. آپ نے اپنے آپ کو زندگی کے دھارے پر چھوڑ دیا تو زندگی یوں بھی گزر جائے گی لیکن اگر معاشرے اور انسانیت کی بہتری کے لیے آپ کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور آپ کی خواہش ہے کہ آئندہ نسلوں کے لیے کچھ صدقہ جاریہ چھوڑ کر جائیں تو اپنے اوقات اور عادات کو منضبط کرنا ہوگا اور تسلسل کے ساتھ اپنی صلاحیت کی نشوونما کرنی ہوگی.