(دوسری اور آخری قسط)
حقانی القاسمی
شاعری کے علاوہ صحافت کے میدان میں بھی مظفر پور کی جلوہ نمائیاں کم نہیں ہیں،اسی شہر سے کبھی اخبار الاخیا ر جیسا پندرہ روزہ اخبار نکلتا تھا۔ جس کے مالکان میں بابو اجودھیا پرشاد منیری اور منشی قربان علی قربان تھے۔ اسکا پہلا شمارہ 10ستمبر 1868میں شائع ہوا۔ یہ اتنا اہم اخبار تھا کہ قاضی عبدالودود جیسے عظیم محقق نے اس کی تفصیلات یوں لکھی ہیں:
’’اخبارالاخیار کے صفحہ اول میں مرقوم ہوا کرتا تھا یہ ’’ سینٹفک سو سیٹی (کذا) صوبہ بہار، کا اخبار تھا اور مطبع چشمہ نور’’ واقع قصبہ مظفر پور ضلع ترہت‘‘ میں چھپا کرتا تھا۔ یہ مہینہ میں دو بار نکلتا تھا اور اسکی سالانہ قیمت جس میں ڈاک کا محصول شامل نہ تھا، بارہ روپے تھی ۔ اسکے صفحہ ۱ میں یہ شعر بھی ہوا کرتا تھا:
چشمۂ نورلمعہ طوراست
پرچہ بینی ضیا آن نور است
ایک شمارے میں ۶۱ صفحات (تقطیع) ہوا کرتے تھے اور کاغذ اتنا برا استعمال ہوتا تھا کہ اب ’’ ہاتھ آئیں تو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے‘‘ کا معاملہ ہے‘‘۔ (بحوالہ چند اہم اخبارات و رسائل ، قاضی عبدالودود، ادارہ تحقیقا ت اردو پٹنہ1993ص 61) اس کے علاوہ ڈاکٹر سید احمد قادری کی تحقیق کے مطابق مظفر پور سے ممتاز تربیت (1880)مہر انور(شیخ محمد حسن ضیا) نسیم شمال 1946))ہفتہ روزہ ندائے عوام (سبط حسن رضوی) مرکز انوار (علوی القادری) لمحہ نور (شجاعت علی) گرم ہوا (ایس ہدی، عظیم اقبال) کردار ( نقی امام) شعاع مہر (1871) شہادت (مولانا امان اللہ) رضوان ( عطا الرحمن عطا کاکوی، سید علی حیدر نیر) بزم فکر وا دب ( ڈاکٹر شمیم احمد ) المحبوب (بسمل مظفروی) انعکاس (منظر اعجاز) ادراک ( قمر اعظم ہاشمی ، محمد سلیم اللہ) جیسے رسائل و اخبارات مظفر پور سے نکلتے تھے ۔ ان اخبارات کے علاوہ مظفر پور سے تعلق رکھنے والے اور بھی مدیران ہیں جن میں عارف اقبال (مدیر اردو بک ریویو دہلی)، ابرار رحمانی ( ایڈیٹر آج کل نئی دہلی) ،عتیق مظفر پوری اور تمنا مظفرپوری کے نام اہم ہیں۔ عتیق مظفر پوری نے افسانوی دنیا کے نام سے ایک رسالہ سلطان گنج پٹنہ سے نکالا جس کی ادبی حلقوں میں خاطر خواہ پذیرائی ہوئی۔ اسی رسالے کے چوتھے شمارے (اکتوبر1986) میں شین مظفر پوری ( محمد ولی الرحمن موضوع باتھ اصلی ضلع سیتا مڑ ھی سابق مظفر پور) کا انٹر ویو شائع ہوا تھا، جس میں انھوں نے انو آپا اور بند کمرہ کے بارے میں بتایا ہے کہ ان پر بہت زیادہ ردعمل ہوا اور فحش نویسی کا الزام بھی لگا۔ اسی شمارے میں شین صاحب کی ایک اہم تحریر ’’کتا جو دانشور نہ تھا‘‘ بھی چھپی تھی ،جو ادبی حلقوں میں موضوع بحث بنی رہی،تمنا مظفر پوری نے اطفالِ ادب ،گیا ، بچو ں کی دنیا، گیا کے نام سے رسالے نکالے۔
مظفر پور کا تنقیدی منظر نامہ بھی منور ہے، کہ سلسلۂ نقد سے ایسی شخصیتیں جڑی ہوئی ہیں، جنہوں نے تنقید کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا ہے اور اپنے تنقید ی تحرکات سے نئی طرفیں کھولی ہیں، ان میں پروفیسر نجم الہدیٰ (فن تنقید اور تنقید نگاری، مسائل و مباحث) ، ڈاکٹر خورشید سمیع، پروفیسر قمر اعظم ہاشمی( اردو میں ڈرامہ نگاری بہار کے نظم نگار شعراء)، پروفیسر عبدالواسع اور ڈاکٹر ارشد مسعود ہاشمی (شکیل الرحمن کی غالب شناس، نفسی تجربے اور ادبی تخلیق) اور ڈاکٹر امتیاز احمد (شعبہ اردومسلم یونیورسٹی علی گڑھ) کے نام قابل ذکر ہیں، عبدالواسع کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے بہار میں اردو سوانح نگاری اور فن سوانح نگاری پر نہایت ہی کتابیں لکھی ہیں، جو اتنی مستند ہیں کہ ڈاکٹر وزیر آغا جیسے ناقد نے یہ اعتراف کیا کہ ’’ان کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ اس کی موجودگی میں اس موضوع پر پیش کی گئی دیگر کتابوں کی حاجت نہیں رہتی ،نہ صرف اس لئے کہ ڈاکٹر عبدالواسع نے اپنے مطالعے میں تمام ماخذات کو برتاہے اور اپنے موضوع کے سلسلہ میں تمام ممکنہ معلومات یکجا کر دی ہیں بلکہ اس لئے بھی انہوں نے فن سوانح نگاری کو ایک تیسری آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘
اس کے علاوہ’’ مفہوم کی سمت‘‘ ا ن کی ایک اہم کتاب ہے۔ جس میں 14مضامین ہیں اور یہ تمام مضامین نہایت اہم اور عرق ریزی کا مظہر ہیں، ولی کا تصوف ، غالب اور ظرافت کا فن ، یادگار غالب کا سوانحی جائزہ، انیس کی جذبات نگاری، مسدس حالی کی قدر و قیمت، شاد عظیم آبادی کی سوانح نگاری، مسجد قرطبہ ایک شاہکار، علم زبان، اردو کی ابتدا و آفرینش، تنقید ، تخلیق اور نظریات ، اردو تنقید پر مغرب کے اثرات ، اردو تنقید ذات و کائنات، سوانح نگاری کا فن ، بہار میں اردو سوانح نگاری، یہ وہ مضامین ہیں جن مین ان کی تنقیدی بصیرت اور امعان نظر کے نقوش مرتسم ہیں۔ ڈاکٹر عبدا لواسع کا کام اتنا اہم ہے کہ ان پر مناظر عاشق ہرگانوی نے پروفیسر عبدالواسع فن اور شخصیت کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی اور اس طرح عبدا لواسع کے تنقیدی اطراف و ابعاد کا احاطہ کیا، پروفیسر عبدالواسع کا تعلق گو کہ نالندہ ضلع کے استھانوں سے ہے، مگر بہار یونیورسٹی مظفر پور سے ان کا تدریسی تعلق رہا ہے۔
فکشن کے میدا ن میں بھی مظفر پور حسنِ مطلع کے ذیل میں آتاہے۔ یہیں سے شین مظفر پوری(جن کا افسانہ حلالہ بہت مشہور ہوا)، شفیع جاوید ، نعیم کوثر، منتخب فریدی، سلیم سر فرازوغیرہ کا تعلق ہے۔شفیع جاوید عصری فکشن کا ایک اہم نام ہے، گو کہ ان کا تعلق گیا سے ہے، مگر ان کی پیدائش مظفر پور میں ہوئی اور ان کا پہلا افسانہ ’’ آرٹ اور تمباکو ‘‘ مظفر پور کے دوران قیام ہی شائع ہوا۔ دائرے سے باہر، کھلی جو آنکھ ، تعریف اس خدا کی، رات شہر اور میں، ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔ بحیثیت افسانہ نگار ان کی شناخت مستحکم ہے۔
تحقیق کے میدان میں ایک اہم نام ڈاکڑ ایس ایم زیڈ گوہر کا ہے جنہوں نے اردو میں پہلی بار رپورتاژ کے فن کی نہ صرف قدریں دریافت کیں بلکہ اسے ادب کیصنف قرار دیتے ہوئے اس کے تشکیلی عناصر، صنفی امتیازات اور افتراقی اجزاء پر عالمانہ گفتگو کی اور نثری ادب کی اس جدید صنف کے نقوش واضح کئے اور اس کی صنفی نوعیت کا تعین کیا۔انھوں نے ممتاز رپوتاژ نگاروں میں مرزا فرحت اللہ بیگ ،(دہلی کا یادگار شاہی مشاعرہ) کرشن چندر،(پودے)شاہد احمددہلوی(دلی کی بپتا)، محمود ہاشمی (کشمیر اداس ہے)، قرۃ العین حیدر( ستمبر کا چاند)، کے رپورتاژوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ اور آخر میں انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ:
’’رپورتاژ کی صنف افسانوی بصیرت اور تاریخی شعور رکھتی ہے، اس لئے فطری طور پر اس کے اسلوب کی کشش انگیزی اور معنویت بڑھ جاتی ہے، اگر چہ یہاں واقعات کا استنادی پہلو نمایاں رہتا ہے اور حقائق کی پیشکش ہی کو اہمیت حاصل ہوتی ہے، اس کے باوجود اسلوب تحریر خشک اور بے کیف نہیں ہوتا؛ کیونکہ رپورتاژ نگار کی ذاتی اور داخلی کیفیتیں اس کے حسن و اثر کو بڑھا دیتی ہیں، وہ چشم دید واقعات کا محض منشی اور محرر نہیں ہوتا؛بلکہ اپنی تخلیقی قوت اور فنی بصیرت سے انہیں ایسی روشنی بخشتا ہے جو ان واقعوں کی تابناکی و توانائی کو زیادہ توجہ طلب اور دیر پا بنا دیتی ہے۔ اس کے پیش نظر تاریخ ہوتی ہے، تاریخ سے وابستہ غیر معمولی واقعات و سانحات بھی ہوتے ہیں، اور ان واقعوں کے پس منظر میں موجزن جذبہ و احساس بھی۔ وہ ان تمام عناصر کو ایسے امتزاجی رنگ میں پیش کرتا ہے کہ رپورتاژ کی اسلوبی قوت پائیدار اور ادبی قدروں کی مظہربن جاتی ہے۔ اس فنی نوعیت کے رپورتاژ اردو میں کم لکھے گئے ہیں۔
عام طورپر ڈائری یا اخباری رودادوں میں بھی روز مرہ کے واقعات قلمبند کئے جاتے ہیں۔ مگر یہاں نہ مورخانہ شعور ہوتا ہے، نہ فنکار انہ بصیرت اور نہ تخلیقی اسلوب! فنی طورپر رپورتاژ کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اس میں یہ تینوں عناصر متوازن رنگ میں پیش کئے گئے ہوں اور رپورتاژ نگار نے ضبط و نظم سے کام لیا ہو۔
واقعہ نگاری، کردار نگاری اور ماحول آفرینی کے اجزاء رپورتاژ کے ضروری عناصر ہیں۔ لیکن ان تینوں عناصر کے بر تاؤ کا رنگ ، افسانہ سے مختلف ہوتا ہے۔ افسانہ میں تخیل و تصور، احساس اور جذبہ کی رنگ آمیزی کا پہلو بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ افسانہ نگار، کردار حسب ضرورت خلق کرتا ہے، واقعات گڑھتا اور نئے ماحول کی تشکیل بھی کرتا ہے۔رپورتاژ نگار کو نہ اس کی مہلت ہوتی ہے، نہ اس کی گنجائش۔ وہ حقائق حیات ہی سے واقعات کا انتخاب کرتا ہے۔ ان میں غیرضروری اضافے یا تخفیف کی اجازت اسے نہیں ہوتی ہے۔ اس کے کردار بھی معلوم و مقرر ہوتے ہیں۔ وہ ان کی سیرتوں کی تشکیل بھی اپنی خواہش یا مرضی کے مطابق نہیں کر سکتا ۔ جن حالات اور ماحول میں واقعات رونما ہوتے ہیں، ان میں بھی کسی طرح کی تبدیلی کا حق اسے حاصل نہیں ہوتا۔ وہ رپورتاژ کے صنفی تقاضوں کو اس احتیاط اور خوش اسلوبی سے برتتا ہے کہ قاری ان تمام حقیقتوں کا ادراک ایک فطری ڈھنگ میں کرتا چلا جاتاہے۔
رپورتاژ کے اسلوب تحریر کا بیانیہ پہلو بھی اس کے صنفی امتیاز کا سبب ہے۔ رپورتاژ نگار تمام واقعوں اور تجربوں کو ایک فطری سادگی، سہولت اور تسلسل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ اس کے اسلوب میں تصنع نہیں ہوتا، آرائش اور جذبہ و احساس کی فراوانی بھی نہیں ہوتی ہے۔ لیکن وہ واقعوں کو ان کی داخلی کیفیتوں سے اہم آہنگ کر کے پیش کرتا ہے۔ انداز بیان کی پیچیدگی چونکہ ذہنی رکاوٹ کاسبب بنتی ہے اور اس کا بوجھل پن اسلوبی رخنہ پیدا کرتا ہے، اس لئے رپورتاژ کے لئے سادگی و صفائی اور شادابی تحریر ضروری ہے۔ فنی طورپر رپورتاژ کی کامیابی کیلئے اس میں اس عنصر صفت کا موجود ہونا لازمی ہے۔ (ص 134-135)اردو رپورتاژ نگاری پر گو کہ ڈاکٹر عبدالعزیز کی کتاب پہلے ہی چھپ چکی تھی۔ مگر ریسرچ کی سطح پر اردو میں رپورتاژنگاری پریہ اپنی نوعیت کی پہلی کتا ب ہے۔ کیونکہ اس میں صرف رپورتاژ جمع نہیں کئے گئے ہیں بلکہ اس کے صنفی لوازمات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور تحقیق و تدقیق کے جملہ تقاضوں کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔
اس شہر کے لئے باعث ناز و فخر بات یہ بھی ہے کہ یہیں کے موضع مہر تھا، کانٹی سے ماہر اقبالیات بدیع الزماں (پ: 22اگست 1922، م: 9ستمبر2010) کا تعلق ہے، جنہیں اقبال سے بے پناہ عشق اور لگاؤ ہے کہ انھوں نے اقبالیات کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی۔ شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو، جسے انھوں نے چھوڑا ہو۔ اقبال شناسی کے ضمن میں ان کی کتابیں( اقبال کے کلام میں قرآنی تعلیمات، اقبال: شاعر قرآن، اقبال کا پیام نوجوانان اسلام کے نام، مجھے ہے حکم اذاں، رہ گئی رسم اذاں) بہت اہمیت کی حامل ہیں۔
شبیر احمد حیدری بھی مظفر پور کی اہم شخصیت تھے بینی آباد کے ساکن حیدر نے احوال و آثار محمد افضل سر خوش پر نہایت عمدہ تحقیقی کام کیا ہے۔ اخلاق جلالی، چہار مقالہ، برگزیدہ قصائد عرفی کی ترتیب ترجمہ اور تحشیہ نے تحقیق میں انہیں امتیاز عطاکیا ہے۔
Email: [email protected]
Cell: 9891726444