Home تجزیہ لا ابالی طلبہ اور چھٹیاں

لا ابالی طلبہ اور چھٹیاں

by قندیل

 فضیل احمد ناصری
طالب علمی کا دور بڑا عجیب ہوتا ہے۔ بڑا ہی عجیب و غریب۔ شیطان ان کے پیچھے اس طرح لگ جاتا ہے، جس طرح نمازیوں کے پیچھے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ کی بڑی آبادی عموماً "حریت طلب” ہوتی ہے۔ ان کا دل پڑھنے میں نہیں لگتا۔ لایعنی مصروفیات میں ان کو زیادہ مزا آتا ہے۔ کھیل کود، سیر و تفریح، اٹھا پٹخ ان کا سب سے محبوب مشغلہ۔ درس گاہوں سے انہیں وحشت ہوتی ہے۔ رجسٹر حاضری نہ ہو تو دو چار طلبہ سے زیادہ کسی درس گاہ میں نظر نہ آئیں۔ اور بعض تو خالی ہی دکھائی دیں۔ ان کے والدین حسنِ ظن رکھتے ہوئے بڑے لمبے لمبے خواب دیکھتے ہیں، مگر کبھی اربابِ مدرسہ سے رابطہ کر کے پرسشِ احوال نہیں کرتے۔ نتیجتاً مدارس میں طویل عرصہ گزارنے کے بعد بھی یہ کولھو کے بیل ہی رہتے ہیں۔ جہاں سے چلے تھے وہیں کے وہیں۔
ان کو آزادی بہت پسند ہے۔ یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح درس گاہ نہ پہونچیں۔ انتظامیہ سے بچنے کے لیے ان کے پاس بہانے بہت ہیں۔ ایسے ایسے اعذار یہ تراش لائیں گے کہ ذمہ داران خواہی نہ خواہی تسلیم کر لیں۔ رخصت منظور کرا لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ بیماری کا عذر تو زیادہ دیر تک ساتھ نہیں دے سکتا۔ انہیں جب بھی چھٹی چاہیے تو سب سے اچھا بہانہ یہ ہے کہ بھائی یا بہن کی شادی کا حوالہ پیش کر دیا جائے۔ یہ بہانہ مزید کارگر نہ ہو تو اگلی رخصت کے لیے دادا، دادی، نانا نانی اور امی ابو تو ہیں ہی۔ یہ جب چاہیں گے موقع بہ موقع ان کی موت کا حوالہ دے کر طویل چھٹی لے لیں گے۔ اس طرح کے متعدد واقعات خود میرے ساتھ پیش آ چکے ہیں۔ ایک طالب علم علاج کی غرض سے ایک ہفتے کی رخصت پر گیا۔ آیا تو دو دن مزید نکل چکے تھے۔ بلایا اور سببِ تاخیر معلوم کی تو اس نے نانا کی وفات کا عذر پیش کیا۔ میں نے تاریخِ وفات پوچھی تو اس نے 23 فروری بتایا، میں نے اس کے گھر فون ملایا تو ادھر سے ایک خاتون کی آواز سنائی دی۔ تمہیدی کلام کے بعد میں نے پوچھا کہ آپ کے یہاں کس کا انتقال ہوا ہے? آواز آئی کہ نانا کا۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ فلاں لڑکے کی بہن ہیں? بولی: نہیں، ماں ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ تو اپنے نانا کے انتقال کی خبر دے رہا ہے اور آپ اپنے نانا کی۔ کس کی مانوں? پھر میں نے پوچھا کہ کس تاریخ میں یہ حادثہ پیش آیا? کہنے لگی کہ 20 فروری کو۔ میں نے کہا کہ آپ اپنے بچے کو سمجھا دیجیے۔ بے تحاشا جھوٹ بول رہا ہے!!
ایک قصہ اسی طرح کا اور پیش آیا، بلکہ اس سے بھی حیرت ناک: ایک طالب علم میرے پاس رونی شکل لے کر آیا۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ امی کا آج ہی انتقال ہو گیا ہے اور مجھے گھر جانا ہے۔ میں نے فوراً چھٹی دے دی۔ وہ دس روز کی رخصت لے کر گیا اور تین دن تاخیر سے آیا۔ اس کا نام کٹ چکا تھا۔ میں نے کہا: بیٹے! اتنے دنوں کی چھٹی تو پہلے ہی دے دی تھی، اس پر بھی مزید تاخیر? کیوں? کہنے لگا کہ ٹرین چھوٹ گئی تھی۔ میں نے پوچھا کہ اتنی طویل رخصت کس بات کی لی تھی? کہنے لگا کہ والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ میں نے اس کا فارم اٹھایا تو درخواست میں یہی وجہ مذکور تھی۔ میں نے اس کے والد کو فون ملایا۔ علیک سلیک کے بعد میں نے پوچھا کہ فلاں طالب علم آپ کا کون ہے? آواز آئی: میرا چھوٹا بھائی ہے۔ میں نے پوچھا کہ: آپ کے یہاں ہفتہ عشرہ پہلے کوئی حادثہ ہو گیا ہے کیا? بولا: نہیں تو۔ میں نے کہا کہ: کسی کا انتقال? بولا: نہیں۔ الحمدللہ سب بخیر ہیں۔ ہاں والد صاحب بیمار پڑے تھے، اب وہ بھی بخیر ہیں۔ میں نے دریافت کیا کہ: والدہ کیسی ہیں? جواب آیا: بہت اچھی ہیں الحمدللہ۔ میں نے کہا کہ آپ کا بھائی تو ان کے انتقال کی خبر دے رہا ہے اور اسی بنیاد پر وہ گھر بھی گیا تھا۔ گھبرا کر اس نے فون کاٹ دیا۔ طالب علم کو بلا کر میں نے سخت ڈانٹ پلائی اور اسے صاف کہہ دیا کہ تو چلا جا! چھٹی کے لیے ایسا فراڈ!! داخلہ تو خیر بحال ہو گیا، مگر اس کی جسارت مجھے بار بار یاد آتی ہے۔
طلبہ یہ نہیں سوچتے کہ ناحق چھٹیاں لے کر وہ خود کشی کر رہے ہیں، بلکہ جشن مناتے ہیں۔ مزے لیتے ہیں۔ دعوتیں کرتے ہیں۔ وقت کی قیمت انہیں نہیں معلوم، یا پھر شیطان انہیں یہ سوچنے کی مہلت ہی نہیں دیتا۔

You may also like

Leave a Comment