تازہ ترین، سلسلہ 73
فضیل احمد ناصری
چاہتا ہے تو اگر دنیا میں شاہی زندگی
فرض کر لے اپنے اوپر صبح گاہی زندگی
رزم گاہوں کے لیے بھی کچھ ہنر پیدا کریں
شیخ جی کافی نہیں ہے خانقاہی زندگی
بے بہا اندوختہ ہے فقر مومن کے لیے
عیش سے لاتی ہے دنیا میں تباہی زندگی
موت سے آنکھیں لڑانا جانتا ہے جو فقیر
زندگی اس کی ہی ٹھہری ہے الہی زندگی
صاف ہو آئینہ صورت جس قلندر کا ضمیر
خودبخود کرتی ہےاس کی سربراہی زندگی
صبح کو پھر شام کرنا کھیل بچوں کا نہیں
سخت تر، دشوار تر ہے درس گاہی زندگی
اے مسلماں! مقصدِ تخلیق رکھ پیشِ نظر
بن کے رہ جائے نہ تیری مرغ و ماہی زندگی
برکتیں ساری اڑا کر لے گئی بادِ فرنگ
رہ گئی انسانیت کی بدنگاہی زندگی
اب تو ان اللہ والوں کو ترستی ہے نگاہ
جن کی آخر تک رہی ترکِ مناہی زندگی