وصی میاں خان رازی
ریسرچ اسکالر، جامعہ ملیہ اسلیہ، نئی دہلی
مفسرین لکھتے ہیں کہ ہر نبی کو اس کے دور میں رائج علوم و فنون کے اعتبار سے معجزات عطا کئے جاتے ہیں،موسی علیہ السلام کے دور میں جادوگری کا عروج تھا،عیسی علیہ السلام کے دور میں میڈیکل سائنس کی ترقیاں خیرہ کر دینے والی تھیں اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عرب میں فصاحت و بلاغت کا چرچا تھا، تو اس وجہ سےقرآن کریم کا معجزہ عطا ہوا ۔
ابھی سورۂ اعراف کی تفسیر پڑھتے ہوئے ذہن میں یہ بات آئی کہ قرآن مجید تو تا قیامت ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہےاور لسانی فصاحت و بلاغت کا ادراک کرنے والے اس دور میں زیادہ لوگ نہیں یا کم از کم عصر حاضر میں مروج علوم و فنون میں محض فصاحت و بلاغت کو وہ غلبہ حاصل نہیں،جو دیگر مشاہداتی علوم کوہے ،جبکہ قرآن کریم کا معجزات کی نوعیت پر نظر رکھتے ہوئے اپنی پوری مدت میں ہر اس دور سے مس ہونا ضروری ہے،جس میں اس کو ہدایت کا منبعِ واحد بناکر انسانیت کے سامنے پیش کیا گیاہے۔
اس کا مطلب سائنسی علوم پر فوقیت اور برتری کا راستہ قرآن سے ہوکر ہی گزر سکتا ہے ، اب تک اس بات پر اعتقادا تو الحمد للہ یقین تھا ہی؛لیکن اب شرح صدر بھی ہو گیا۔خاص طور پر جب اس طرف توجہ کی کہ فصاحت و بلاغت کا دورِ عروج دوسری صدی کے اندر ہی کمزور پڑنے لگا تھااور اس کی جگہ دھیرے دھیرے عقلی علوم لے رہے تھے،جو عباسی دور میں فلاسفۂ یونان سے مستعار تھے ، ان کے غلبہ کو توڑنے کے لیے بھی رہنمائی قرآن یا اس کی شرح حدیث سے ہی لی گئی ۔
ہاں ایک بات ضرور ہے کہ ہر دور میں قرآن کے مقابل اٹھنے والے باطل افکار کا کچھ جادو احساسِ کمتری میں مبتلا افراد کے ذہنوں پر چل جاتا ہے ،جس کے نتیجے میں ایک چھوٹی سی تعداد معیارِ کامل انہی علوم کو ماننے لگتی ہے جو اس دور میں رائج ہیں،جب کہ ایک جماعت اس دور کے علوم کو معیار تو مانتی ہے؛لیکن کم فہمی یا کج فہمی کی بنیاد پر قرآنی علوم سے متصادم دیکھ کر قرآن کو اس پر چسپاں کرنے کی کوشش کرتی ہےاور جہاں تضاد نظر آیا وہیں قرآن میں کھینچ تان کرکے، تاویل کرکےاس دور کے مروجہ علوم پر اس کی تطبیق کی کوشش کرتی ہے ۔
فلسفۂ یونان کے غلبہ کے وقت ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طبقہ حد درجہ اس سے متاثر تھا کہ اسی کو معیارِحق سمجھ کر قرآن پر اسے افضلیت دینے لگا،اس میں ” اخوان الصفا "،ابن راوندی، ابوبکر رازی،فارابی ،ابن سینا،ابن رشدوغیرہ لوگ تھے ،جبکہ ایک طبقے نے قرآن کو اصل تو مانا لیکن وہ فلسفہ کو بھی غلط ثابت نہیں کرنا چاہتے؛ اس لئے تطبیق کے چکر میں یہاں تک پڑے کہ بہت سی چیزوں کو ماننے میں تامل ہونے لگا ،اور راہ حق سے ایک درجے میں دور ہو گئے،یہ معتزلہ تھے ۔
لیکن پھر کچھ لوگ آئے جنہوں نے فلسفہ کی بنیادوں کو کھوکھلا ، بے بنیاد ثابت کرکے قرآن کریم کے غلبہ کو ثابت کر دیا،وجہ ظاہر تھی کہ فلسفہ جہاں تک قرآن کے ساتھ چلے ٹھیک ہے ،جہاں قرآن کے علوم سےمتصادم ہو،وہاں فلسفہ کو نہ صرف ٹھکرایا جائے؛ بلکہ قرآن کی برتری اس پر ثابت کر دی جائے،امام غزالی،ابن تیمیہ،امام رازی رحمہم اللہ وغیرہم نے یہی کیا۔
آج بھی جب سائنس اور مشاہداتی علوم کی ہوا ہے ،تو پہلے کے دو طبقات کی نمایندگی کرنے والے تو کافی دِکھ رہے ہیں،یعنی سائنس کی برتری ثابت کرنا اور قرآن کو ثانوی حیثیت دینا،ان میں دور جدید کے متعدد عرب مفکرین ،خصوصا مصریوں نے بڑا کردار ادا کیاہے ،کہ قرآنی علوم کی حیثیت کو صرف ذاتی ،وانفرادی حد تک محدود کرکے اس کو ( نعوذباللہ) ” علوم” ہی کی فہرست سے نکال دینے کی بھرپور کوشش کی ، اگرچہ اسلامی ملک کا حصہ ہونے ،اور مسلم معاشرے میں زندگی گزارنے کی وجہ سے وہ صراحتا یہ نہیں کہہ سکے کہ قرآن آج کے دور کے لئے رول ماڈل نہیں،جیسا کہ اخوان الصفا اور دیگر بھی اس کی جرأت نہ کر پائے تھے ، لیکن انہوں نام نہاد "علمی انداز فکر” کی دعوت کے بہانے اپنے ارمان خوب نکالےاور ایک نسل کو گمراہ کیا ۔
ہندوستان میں سر سید نے یہی کیااور جدید علوم کا ایک ہوا کھڑا کرکے اس میں کامیابی کی اہمیت کا جو بیج دلوں میں بو دیا،اس کا نشہ اب تک نہیں اترا ہے ۔
ان کے علاوہ تھوڑے محتاط حضرات کو خلجان رہتا ہے؛چنانچہ سائنس کی محیر العقول دریافتوں کے سامنے قرآنی علوم کی برتری کے سلسلے میں وہ پس وپیش میں مبتلا ہوکر قوم کو اس کی دعوت دیتے ہیں کہ سائنس ہی میں ترقی کا راز مضمر ہے ، اس سلسلے میں وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر قرآنی آیات لاتے ہیں اور سائنس کی ایجادات کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن مجید نے تو 1400 سال پہلے ہی بتا دیا تھا ، سائنس اب بتا رہی ہےاور یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ ” سائنس اور قرآن میں کوئی تضاد نہیں ” ہے ۔
زیادہ تر حالات میں ان پر یہ ” انکشافِ عظیم ” سائنس کی دریافت کے بعد ہی ہوتا ہے ، اس سے پہلے نہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دین کا بھی مذاق بنا دیتےہیں،دوسرےان پر ہنستے ہیں کہ میاں یہ تم نے پہلے کیوں نہ ایجاد کر لیا؟نیز دوسرے لوگ ایسے سائنسی نظریات پیش کر دیتے ہیں،جو قرآن کریم سے متصادم ہیں، تو یہ حضرات مبہوت ہوکر قرآنی صداقتوں پر اپنے ایمان میں شکوک پیدا کر لیتے ہیں ، وجہ وہی دعوی ہوتا ہے کہ سائنس اور قرآن میں چونکہ مکمل یگانگت ہےاور ان کے تحت الشعور میں بیٹھ چکا ہوتا ہے کہ سائنس تو جھوٹا ہو نہیں سکتا،لامحالہ اپنے یہاں ہی گڑبڑی ہوگی ۔
ڈارون کے نظریات کے پھیلاؤ کے وقت پچھلی صدی کے پہلے نصف میں یہی صورت حال پیش آئی اور بہت سے لوگ اس کے چکر میں پھنس گئے ، سارا زور قرآن سے ” نظریۂ ارتقاکی سند” ڈھونڈنے میں لگا دیا، کچھ نے لفظی بازیگری سےیاخداداد ذہانت سے خود بھی قرآن سے اس کا ” ثبوت” نکال کر اطمینان حاصل کر لیااور تھوڑے بہت اپنے متبعین کو بھی تسلی کا سامان فراہم کر گئے ۔
لیکن غلطی یہاں پر تھی کہ ایک بار بھی ان کو جرأت نہ ہوئی کہ کھل کر اس نظریہ یا اس جیسے دوسرے قرآن سے متصادم نظریات کا برملا انکار کر دیتے ، کیونکہ( زیادہ ترکے) تحت الشعور میں سائنس کی عظمت پنہاں تھی،دوسرے سائنس سےمکمل واقفیت،اس میں تخصص نہ ہونا بھی کچھ حضرات کے لئے حائل راہ ہوا ، وہ یہ فرق نہ کر پائے کہ سائنس میں کون سا نظریہ”حقائقِ ثابتہ ” کا درجہ لے چکا ہے،( لہذا قرآن سے اس کا تصادم نہیں ہو سکتا) اور کون سا نظریہ ابھی صرف ” نظریہ” ہی ہے ،حقیقت یا فیکٹ نہیں بنا ہے،اس کے لیے خود سائنس میں وافر دلائل نہیں ہیں،سائنس کے ماہرین کا خود اختلاف ہے ،لیکن اس میں ایک خاص رائے کو ایک منصوبے کے تحت اہمیت دی جا رہی ہے، ارتقاکا نظریہ ایسا ہی تھااور ہے کہ سائنس دانوں کی ایک بڑی جماعت نے اس کی مخالفت کی اور موافقین بھی تخمین و ظن سے زیادہ کچھ ثابت نہ کر پائے ، لیکن مسلمانوں میں ” جدید علوم کے نام نہاد ماہرین” نےمغرب سے زیادہ اس کی اس صدا پر لبیک کہا اور اس کو ثابت کرنے میں ” لبرل ” سمجھے جانے والے مفکرین کی ایک جماعت لگ گئی ۔
تیسری ایک اور جماعت بھی اس دور میں رہی ہےاور اس نے قرآن مجید کی صداقت کے آگے تمام علوم کو ہیچ جانا؛لیکن اس چکر میں قرآن کی صرف لفظی خدمت تک رہ گئے ، انہوں نے قرآن کو ابدی صداقت تو مانا ، ہر دور کے لئے رہنما بھی ببانگ دہل تسلیم کیا ،ہر اس سائنسی نظریہ کا انکار کر دیا جو قرآن کریم سے متصادم تھا ، لیکن غزالی،رازی بن کر قرآن کے علوم کی روشنی میں اس نظریہ سائنس کی اسی کی زبان میں اس طریقے پر تغلیط نہ کر سکے کہ دنیاے سائنس میں کھلبلی مچ جاتی یا کم از کم مسلمانوں کی حد تک اپنی قوم کو ہی صدق دل سےعلومِ قرآن کی عظمت پر دلیل کی روشنی میں مطمئن کر سکتے؛بلکہ آگے بڑھ کر کرنے کا کام یہ بھی تھا کہ جو کچھ سائنس دریافت نہ کر سکا یا جہاں بھٹک گیا،وہاں پر قرآن کی روشنی میں اس کی رہنمائی کر دی جاتی،اس سے ہمیں یہ دعویٰ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی جو سائنسی تحقیقات ہو جانے کے بعد ہم کرتے رہتے ہیں کہ یہ چیز قرآن نے پہلے ہی کہہ دی تھی ۔
ٹھیک ہے،قرآن نے بتا دیا تھا؛ لیکن اس کو دریافت کرنے کا کام کس نے کیا ؟؟
دوسرے لوگوں کی نظروں میں اس سے ہمارے دین کا،ہماری عظیم کتاب کا وقار کم ہوتا ہے ، قرآن مجید تو ہر دورکے لیے ہے تو ظاہر ہے کہ اس میں ہر دور سے نمٹنے کا حل ہے ، اس حل کو ڈھونڈنا ہمارا کام ہے ۔
سائنسدانوں کے پاس تو کوئی ایسایقینی بیس بھی نہیں ہے، وہ عموماً سالوں تک ہوا میں تیر مارتے رہتے ہیں اور اللہ تو ظاہر ہے کہ کسی کی محنت کا اجر ضائع نہیں کرتا ،لہذا ان کو کوئی نہ کوئی راہ سجھا ہی دیتا ہے یا پھر اپنے سے پہلے انسانوں کی ادھوری دریافتوں اور ان کے اقوال کی روشنی میں آگے بڑھتے ہیں ،جو ظاہر ہے قرآن کی طرح نہ یقینی ہے،نہ اتنی واضح ہے ، نہ اس میں اللہ کی وہ مدد ہے جو ایک مسلمان کو قرآن پر غور کرنے کے وقت ملتی ہے ۔
واللہ مجھے صاف محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے قرآن کے ذریعے دریافتیں نہ کرکے نہ صرف اپنے اوپر بلکہ پوری انسانیت پر ظلم کیا ہے؛کیونکہ اول تو سائنسدانوں کے مقابلے ہمارے لئے ریسرچ نسبتا آسان تھی؛ کیونکہ تحقیق و ریسرچ کا منبع قدآن مجید اپنی شرح حدیث شریف کے ساتھ ہمارے ہاتھوں میں موجود تھا ،جس میں ہمارے لیے بنیادی مرحلہ پہلے سے طے تھا،نہ کہ غیروں کی طرح ،کہ ان کو صدیوں میں انسانی عقل کے تجربات ( اور ایک حد تک قرآن کے اثرات) سے دھکے کھاکر ایک بیس اور بنیاد ملی،ہماری بنیاد کے خطوط کہیں زیادہ روشن،واضح اور شفاف تھے،دونوں ہاتھوں میں لڈو تھا ، اگر قرآن مجید پر سالوں کی تحقیق میں ایک بھی نئی دریافت ہوتی تو فبہا ،ورنہ تو اخروی ثواب ، تعلق مع اللہ تو ہر پل اس کی صحبت سے حاصل تھا ہی ، نیز جب انسان رات دن دعا کرکے قرآن کی روشنی میں ، مسلمانوں کے فلاح اور انسانیت کی ہمدردی کے جذبے سے دریافت کی کوششیں کرتا تو اللہ کی مدد و نصرت اس کے شاملِ حال ہوتی ،جو ایک غیر مومن کے لئے اس صورت میں میسر نہیں ، پھر ہم غور کریں تو قرآن کو نقطہ آغاز مان کر اس کے حدود میں انسانیت کی بھلائی کے ارداے سے ریسرچ کرنے والا کیا کوئی ایسی ایجادات کر سکتا تھا جو انسانوں کے لئے مہلک ہوں ؟؟
نیوکلیر ہتھیار ، انسان کےلئے مہلک دوائیں ،ڈرگز ، نئی نئی منشیات ،چوری ڈکیتی کے نئے نئے وسائل وطریقۂ کار ، انسانیت کے لئے نقصان دہ سافٹ وئیرز،یہ سب کیا ایک انسان صرف اپنی ناموری ،یاایک خاص ملک وقوم کی عارضی برتری کی خاطر پوری انسانیت کو تباہی میں جھونک دینے پر رازی ہو جاتا ؟؟ ہرگز نہیں اگر آئینسٹائن کی جگہ کوئی خدا ترس مسلمان ہوتا تو ہرگز ایٹم بم نہ بنتا ، کیمائی ہتھیار وجود میں نہ آتے ۔
اور یہ سب قرآن مجید کی برکت سے ہوتا ۔
میں مانتا ہوں کہ قرآن مجید کے الفاظ ،اس کی فصاحت و بلاغت ، اس کے نحو صرف ، اس کے دیگر علوم ، اس کے وجدانی ہدایتی پیغام پر کام کرنے ، اس کو پھیلانے کی ضرورت ہے ،اور یہ بڑی ضرورت ہے اور الحمد للّٰہ اس میں کسی دور میں علما اسلام نے کمی نہیں رکھی ، اس کے لئے جانیں اور زندگیاں وقف کر دی گئیں؛لیکن اگر آج سائنس کے دور میں ان تمام پہلوؤں کے مراکز ، سینٹرز ، ادارے ، جامعات قائم کرنے کے ساتھ ( جو کہ بحمد اللہ ہیں بھی اور کسی حد تک کام بھی کر رہے ہیں ) اس کے سائنسی پہلو پر ریسرچ و تحقیق کے لئے ڈپارٹمنٹس قائم ہوں ، ادارے کھولے جائیں ، مراکز کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے تو میرا خیال ہے کہ ہم بہت سی چیزوں کے بارے میں نہ صرف یہ کہنے کے قابل ہوں گے کہ یہ ایجادات و دریافت خالص قرآن سے نکلی ہے ،جس کا پیغام 1400 سال سے ہے ، بلکہ ایک بڑی تعداد اسلام کے حلقہ بگوش بھی ہو سکتی ہےاور ان شاءاللہ ہٹ دھرموں کے سوا سب لوگ ہی ہوں گے؛کیونکہ یہ تو ہر نبی کے دور میں بھی حکام اور مفاد پرستوں، نفس پرستوں کا وتیرہ رہا ہے کہ وہ احقاقِ حق کے بعد بھی قبولیت پر آمادہ نہیں ہوتے ، لیکن عامۃ الناس ضرور مائل ہوتے ہیں سچی دعوت کی طرف ( مطلب یہ نہیں کہ اب سچی دعوت نہیں دی جارہی ہے، بلکہ دعوت کا سلسلہ تو جاری ہے لیکن اس کی تاثیر کم ہے ) ۔
ظاہر ہے کہ یہ کام اہل ثروت ، اصحاب سلطنت کا زیادہ ہے ، لیکن اپنے طور پر ہر شخص کو کوشش کرتے رہنا ضروری ہے ، ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اس میں اللہ کی مدد تو ہوگی ہی ، دوسرے تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہر عظیم سائنس دان نے شروعاتی ایجاد بہت کم وسائل کے ساتھ کی ، نیوٹن کی قوت کشش کا سب کو علم ہے ، شروعات بہت معمولی ہوتی ہے ، بس ڈھنگ سے قرآن مجید کو پڑھنے،رب سے خلوصِ دل کے ساتھ مانگنےاور اپنےمشاہدات میں گہرائی لانے کی ضرورت ہے ۔