میانہ قد، سر پہ جالی دار ٹوپی، آنکھوں پہ موٹے فریم کی عینک، جس کے پیچھے دو چمک دار آنکھیں، جن میں حیا کا نور، وجیہ چہرہ، جس پہ متانت کا پہرہ، ہونٹوں پہ کھیلتی ہوئی مسکراہٹ، ان کے تمام رویہ ہاے حیات کی شرافت، علم و فقہ اور قضا و افتا کی خداداد صلاحیتوں کے مالک، پختہ کار و پختہ ذہن عالم، خلوص ومحبت کا پیکر، جاذبیت اور کشش کا تاج محل، قائدانہ لیاقت کے بے پناہ خزانے کے مالک، رجال شناس ورجال ساز، مفکرانہ سوز و گداز، ملت کا غم گسار، ششہ و شگفتہ، نپی تلی، بلیغ، موقع ومحل کے لیے موزوں، موتیوں کی طرح پروئی ہوئی ، حشو و زائد سے پاک اور حجت و برہان سے مستحکم شیرینی گفتگو سے محظوظ کرنے کا نرالا پن، حاضرین پر جادو کرنی کی طرح تبسم آمیز کلام، ذہانت ریز سوز و گداز اور ہر مخاطب کو اپنی منفرد رویے سے اسیر کرلینے کا ملکہ؛ ان تمام خوبیوں کو ایک انسانی قالب میں رکھ کر دیکھیں! جس شخصیت کا پیکر سامنے آئے؛ انھیں کو "حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی ” کہاجاتا ہے.
مجاہد ملت حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی ہندوستان کی جدید تاریخ کے معماروں اور ایسے مجاہدوں میں تھے، جن کی زندگی آخری سانس تک قوم و ملت کی خدمت میں لگی رہی. مجاہد ملت کو ان کی ایمانی فراست، علمی رفعت، سیاسی بصیرت، بے پناہ جرأت، پرجوش خطابت، فکر کی پختگی، ارادے کی مضبوطی جذبے کی توانائی اور ان کے کارناموں نے ملی تاریخ کا ایک شاندار کردار بنا دیا. مسلمانوں کو سربلندی سے ہم کنار کرنے کی ان کے دل میں ایک تڑپ تھی، جس نے شب و روز ان کو متحرک رکھا. وہ ہندوستانی مسلمانوں کی آواز اور دل ودماغ تھے. انھوں نے جتنے اخلاص اور بے لوث جذبوں کے ساتھ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خدمات انجام دیں ہیں، ہمارے ملی رہنماؤں کی تاریخ میں اتنی فعال و متحرک اور علمی صداقت رکھنے والی شخصیتیں بہت کم نظر آتی ہیں.
آپ نہایت ہی خلیق، ملنسار اور ہر دل عزیز انسان تھے، بڑے ہی بیباک اور بے خوف طبیعت کے مالک تھے، مودت ومروت، تہذیب و ثقافت، حلم و برد باری اور متانت و سنجیدگی آپ کی رگ و ریشے میں بھری ہوئی تھی، سیدھا سادھا پیکر عظیم.
آپ صوبہ بہار کے مردم خیز ضلع "دربھنگہ” کے "جالہ” نامی گاؤں کے ایک علمی ودینی گھرانے میں 1355ھ =9/اکتوبر 1936ء کو پیدا ہوئے. سلسلہ نسب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے "محمد بن حنفیہ” سے جا ملتا ہے.
ابتدائی تعلیم :آپ نے قرآن مجید ناظرہ اپنی والدہ سے پڑھا، اردو، فارسی اور عربی کی ابتداء کتابیں اپنے بڑے بھائی "مولانا زین العابدین صاحب” سے پڑھیں. "میزان الصرف”اپنے والد ماجد "مولانا عبد الاحد” سے پڑھی.
متوسط وثانوی تعلیم :مدرسہ محمود العلوم، دَملہ، ضلع مدھو بنی، مدرسہ امدادیہ دربھنگہ اور دار العلوم مئو ناتھ بھنجن سے متوسط و ثانوی درجے کی تعلیم حاصل کی.
اعلی تعلیم :1951ء(1370ھ)سے 1955ء (1374) یعنی چار سال تک دار العلوم، دیوبند میں اعلی تعلیم حاصل کی :شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سے آپ نے "بخاری شریف ” پڑھی. آپ نے "حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی”، "علامہ محمد ابراہیم بلیاوی”، مولانا عبد الحفيظ بلیاوی”،” مولانا محمد حسین بہاری "،” مولانا فخر الحسن مراد آبادی "،” مولانا بشیر احمد خاں "،” مولانا نصیر احمد خاں”اور مولانا معراج الحق صاحب جیسے باکمال، ماہر فن اور یکتائے روزگار سے علوم و فنون کی مختلف کتابیں پڑھیں.
مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی کو اللہ تعالٰی نے چند ایسی صفات سے متصف کیا تھا جو انھیں اپنے معاصرین و اقران سے بالکل ممتاز کرتی ہیں. انھوں نے طالب علمی کے زمانے میں حصول میں ایمان داری کے ساتھ، پورے ذوق و شوق سے کما حقُہ محنت کی، خداداد فطانت اور حوصلہ مندی نے ان کا ساتھ دیا، توفیقِ الہی ہم قدم رہی، اخّاذ اور بیدار ذہن نے سونے پہ سہاگے کا کام کیا. مولانا مجاہد الاسلام حضرت مدنی کے فیضِ تعلیم و تربیت اور دار العلوم، دیوبند کے روح پرور اور روح ساز ماحول کی بہ دولت اور بہ توفیقِ الہی اعلی درجے کے عالم بن کے ابھرے. ان کے علم و فضل میں خیر و برکت کی بنیادی وجہ یہ بھی تھی، کہ انھیں اپنے دیگر عالی مرتبت اساتذہ کے ساتھ ساتھ، "شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حیسن احمد مدنی” سے اور اپنی مادر علمی دار العلوم، دیوبند سے عشق کی حد تک محبت و عقیدت تھی . وہ جب بھی ان دونوں کا، یا دونوں میں سے کسی ایک کا تذکرہ کرتے، تو بے اختیار مچلتے اور جھومتے اور ایسے وقت میں ان کے لہجے میں بلا کی شیرینی اور عشقِ کرشمہ ساز کی قیامت خیز وارفتگی پائی جاتی، کہ سننے والا بھی وجد کرنے لگتا.
فصاحت جھومتی تھی ان کے اندازِ انشا پر.
لبِ اعجاز پر ان کی بلاغت ناز کرتی تھی.
آپ کا شمار بلاشبہ ان افراد میں ہوتاہے، جن کی پوری زندگی سعی محنت، جد وجہد اور عزم وارادے سے عبارت ہے.
مولانا سید منت اللہ رحمانی ایک عقابی سوچ اور شاہین فکر کے متحمل عالم و قائد تھے. ان کی شخصیت بلاشک وشبہ رجال ساز اور رجال شناس کی حسین سنگم تھی اس گوہری جوہر شناس نظروں نے قاضی صاحب کے اندر چھپے جوہر کو دیکھ لیا تھا اور وہ بھانپ گئے تھے کہ یہ آفتابِ عالم تاب کی طرح چڑھتا ہوا یہ شخص، خاص قسم کی غیر معمولی فقہی بصیرت، زر خیز ذہن اور علم وفن کے صدف کا آب دار موتی ہے؛ چناں چہ جب امیر شریعت رابع کی حیثیت سے مولانا منت اللہ رحمانی کا انتخاب عمل میں آیا، تو انھوں نے امارت شرعیہ کے قاضی و مفتی کی حیثیت سے مولانا مجاہد صاحب کو پھلواری شریف پٹنہ بھیج دیا. انھوں نے امارت کی زلفوں میں پڑے پیچ و تاب کو اپنے رفقائے کار کے مثلِ شمع مخلصانہ اشتراک و تعاون سے اس طرح سنوارا کہ نہ صرف علم وقضا اور فقہ و فتاوی کے منصب کو چار چاند لگائے؛ بل کہ امارت شرعیہ بہار اڑیسہ و جھارکھنڈ ان کے نام کا عنوان اور ان کی زندگی کا حصہ بن گیا اور دونوں اس طرح لازم و ملزوم ہوگئے کہ ایک کا تصور دوسرے کے بغیر ممکن نہ رہا. امارت کی جدت کاری اور ترقیات سے ہم دوشِ ثریا کرنے میں جس طرح انھوں نے اور ان کے رفقائے کار نے خون پسینہ ایک کیا؛ بل کہ جگر کا خون کیا؛ جان کاہی اور کوہ کنی کہ جو زندگی بسر کی؛ ذہانت، فراست، بصیرت اور علم آگہی کے خزانے کو جس طرح لٹایا؛ وسائل کی کمی، حالات کی سنگ دلی اور وقت کی جس بے التفاتی کا، کاروانِ امارت کو اُس زمانے میں سامنا رہا، وہ خود ایک مستقل تاریخ ہے اور خدام امارت کی عزیمت کا نشانِ امتیاز ہے. مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی تقریباً 35 سال تک یہاں قضا و افتا کاجام اس طرح لنڈھایا کہ "قاضی” أن کے نام کا ہمیشہ کے لیے سابقہ بن گیا اور لوگ انھیں "مولانا مجاہد الاسلام قاسمی” کی بہ جائے "قاضی مجاہد الاسلام قاسمی” کہنے لگے. انھوں نے سیکڑوں معاملات کے اسلامی شریعت کی روشنی اور فقہ اجتہاد کے اصول کی بنیاد پر نہ صرف فیصلے کیے ہیں؛ بل کہ سیکولر اور غیر اسلامی ہندوستان میں امارت شرعیہ کے برپا ہونے کی صورت کو اجاگر کیا اور عملی شکل میں مختلف صوبوں اور خطوں میں اس کا قیام کی بار آور کوشش کی.
انھیں حضرات کی سعی پیہم کی وجہ سے پھلواری شریف کی تنگ گلی کے دو ایک تنگ راستوں سے نکل کر امارت شرعیہ کا مرکز پھلواری شریف کی شاہ راہِ عام پر اپنے نئے، کشادہ اور خوش منظر اور حوصلہ بخش دفتروں میں آگیا اور اس کی خدمات بھی ہندوستانی کی متنوع ضروریات اور جذبات کا احاطہ کرنے لگیں؛ چناں چہ کئی عدد ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ قائم ہوے سجاد ہاسپٹل بنا،المعد العالی للقضاء کا قیام عمل میں آیا، دارالعلوم امارت شرعیہ کی بنیاد گزاری روبہ عمل آئی اور ملت کہ تمناؤں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی مختلف شکلیں پیدا کی گئیں، بہار کے مدارس کو ایک نظام کے تحت مربوط کیا گیا، ریلیف کا کام وسیع پیمانے پر استوار کیا گیا، مکاتب کا جال پھیلایا گیا، امت کے نوع بہ نوع دکھ درد کی زود اثر اور اصلی دوائیں ایجاد کرنے کی طرح ڈالی گئی. اس طرح امارت کا نام نہ صرف مسلمانوں؛ بل کہ کم از کم بہار کی سطح پر حکومتِ وقت کی نگاہ میں معتبر بن گیا، مشکل تھا کہ ملتِ اسلامی کے حوالے سے بہار گورنمنٹ کوئی قدم اٹھائے اور امارت شرعیہ کے چشم وابرو کے اشارے سے صرف نظر کرلے.
مجسم فقہ و قضاء افتا:
یوں محسوس ہوتا ہے کہ حضرت والا سر سے پاؤں تک فقہ ہی فقہ تھے. قانونِ شرعیہ اور قانون ہندوستانی کا اللہ آنے انھیں غضب کی صلاحیت دی تھی. بر صغیر کے علما میں وہ اس بات میں بھی ممتاز تھے، کہ ان کا ذہن ایک عبقری تھا، علمِ فقہ اور قضا و افتا کے لیے خدائے علیم نے خاص طور پر ڈھلا تھا، ان کی پہچان اس فن میں خاص عالم کی حیثیت سے تھی. ان کی شہرت جب مشک کی صفت اختیار کر لی اور بیرون ملک میں بھی اس مشک کی خوش بو پھیلنے لگی، تو عالمِ عرب اور عالمِ اسلام کے علما ہی نہیں، وہاں کے قانون دانوں کو ان کی ہمہ گیر فقہی بصیرت کا علم ہوا، تو سبھوں نے ان کا لوہا مانا، چناں چہ عالم عرب کے علاوہ دیگر مغربی اور افریقی ممالک میں انھیں فقہی، شرعی اور علمی سیمیناروں میں دعوت دی گئی، وہاں کے متعدد فقہی وعلمی اداروں کے ممبر اور سرپرست منتخب ہوئے، ہر جگہ نہ صرف ان کو عزت وتکریم کی نگاہوں سے لوگوں نے دیکھا؛ بل کہ فقہ و قضا و اجتہاد میں ان کی انفرادیت کا ماہرینِ فن اور مفکرین نے کھلے لفظوں میں منہ بھر بھر کے تعریف کی. کویت، سعودی عرب اور مصر کے علما و اربابِ علم ودانش نے تو بہ طورِ خاص انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا، سروں پہ بیٹھایا اور پلکوں پہ سجا کے دیدہ ودل کو ان کے استقبال میں ہمیشہ ہی نچھاور کیے رکھا. جامعہ ازہر کے شیخ سید طنطاوی ان سے بہت ہی متاثر تھے. علوم شریعت میں ان کی گہرائی کو خراجِ عقیدت ہی کی بات تھی کہ انھیں اسلامک فقہ اکیڈمی جدہ، اسلامک فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ، علمی اکیڈمی شام، ہیتیہ خیریہ اسلامیہ کویت وغیرہ کا رکن منتخب کیاگیا اور اندرون ملک تو وہ اسلامی فقہ وقضا کا عنوان ہی بن گیے تھے
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ تو روز اول سے ہی ہندی مسلمانوں کا سب سے زیادہ مضبوط، مستحکم، موثر اور وسیع البنیاد پلیٹ فارم رہا، جس کو مولانا مجاہد نے حضرت منت اللہ رحمانی کی سرپرستی میں، اول دن سے ہی ملت کو ایک دھاگے میں پرونے کے لیے استعمال کیا. بہ جا طور پہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی ملی تشخص کو برقرار کو رکھنے کے لیے مسلم پرسنل لا بورڈ نے جو کوششیں کیں اور ملت کی ملی وشرعی زندگی سے متعلق مسائل کے تئیں جو فیصلے کیے، اس کی مثال آزاد بھارت کی اتہاس میں کسی اور ارادے کے حوالے سے ہر گز پیش نہیں کی جاسکتی. اتحاد ملت ہی کے جذبے سے انھوں نے آل انڈیا ملی کونسل کے نام سے ایک تنظیم قائم کی؛ تاکہ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کو متحدہ پیلٹ فارم کے ذریعے مؤثر طریقے سے پیش کیا جاسکے. مولانا مجاہد الاسلام صاحب قاسمی کا ایک یہ بھی بہت ہی بڑا کارنامہ ہے کہ انھوں نے فقہ اکیڈمی انڈیا کی تاسیس کی. اس کے سیمیناروں اور فقہی اجتماعات کے ذریعے؛ نہ صرف یہ کہ ان گنت نئے نئے مسائل کے شرعی حل پیش کیے اور امام اعظم ابو حنیفہ کے طرز علم پہ چلتے ہوئے اجتماعی اجتہاد کے نقطہ نظر کو عملی جامہ پہنایا، عام کیا اور علما کو اس کام کا عادی بنایا؛ بل کہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے انھوں نے نوجوان علما وفضلا کو نئے حالات ومسائل پر سوچنے، لکھنے، غور کرنے اور بولنے کا موقع دیا اور نوجوان علما کی ایک بڑی کھیپ کو صحیح وقت پر صحیح سمت میں سرگرمِ سفر کردیا اور بہت سے لوگ فقہ واجتہاد کے متنوع موضوعات پر لکھ کر مصنف و مؤلف بن گئے اور بنتے جا رہے ہیں.
یہ دنیا کتنی بے وفا ہے، زندگی کے ساتھ انسان بے پناہ محبت کرتا ہے، اپنی زندگی کے لیے حد درجہ قربانی پیش کرتا ہے، دل ودماغ میں فلک بوس عمارتیں تعمیر کیے رہتا ہے؛ لیکن یہ زندگی اتنی بےوفا اور بے مروت ہے، کہ تمام وفاؤں کو پسِ پشت ڈال کر منٹوں میں خوابوں کے محلات مسمار کردیتی ہے اور انسان کے تخیلات، تصورات نہ چاہ کر بھی دم توڑ نے پر مجبور ہوجاتے ہیں:
زندگی تو بےوفا ہے، ایک نہ ایک دن ٹھکرائے گی.
موت محبوبہ ہے اپنی ساتھ لے کر جائے گی
چناں چہ موت اپنی اسی محبوبائی کی فطرت کو بہ روئے کار لاتے ہوئے، مولانا کے کارناموں سے کچھ اس طرح وارفتگی کا شکار ہوئی کہ اپنے اس محبوب کو ہمیشہ ہمیش کے لیے دنیا کی نظروں سے بچا کر جمعرات :20/محرم الحرام 1433ھ=4/اپریل 2002ء کو سات بج کر پانچ منٹ میں اپولو ہسپتال سے اپنی آغوش میں چھپا لیا. انا للہ و انا الیہ راجعون.
بہر حال حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی ہمارے درمیان سے اپنی طبعی عمر پوری کرکے چلے گئے ہیں؛ مگر ان کے کارنامے اس قدر ہیں، کہ وہ صدیوں تک بھلائے نہیں جا سکیں گے، نئی نسل ان کی علمی تحقیقات سے ہمیشہ مستفید ہوتی رہے گی. اور استاذ ذوق کی زبانی میں کہوں گا کہ :
رہتا ہے سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوق!
اولاد سے یہی کہ دو پشت چار پشت.
شمس تبریز قاسمی ،موتیہاری
ریسرچ اسکالر شیخ الہند اکیڈمی، دارالعلوم، دیوبند
2 comments
ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ تحریر
جزاک اللہ
ماشاءاللہ بہت خوب جناب والا بہت اچھا مضمون ہے