(تنقیدی و تحقیقی مضامین)
صنف حنیف نجمی
اشاعت:2018
صفحات:276
قیمت:275
ناشر. روز ورڈ بکس ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی
تبصرہ نگار: امیر حمزہ
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی
بہت ہی کم ایسی کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں،جو فکر کو مہمیز کریں اور ان سے نظر کو بالیدگی عطا ہوـ مگرحنیف نجمی صاحب کی یہ کتاب پہلی ہی نظر میں کسی بھی سنجیدہ قاری کو اپنی جانب مائل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؛کیونکہ اس کتاب میں تین اہم ایسے مضامین ہیں،جن میں سے دو کا پلاٹ صرف ایک بیت پر قائم کیا گیا ہے اور ایک تحقیقی مضمون صرف ایک مقولے پرمرکوز ہےـ
کتاب کی فہرست پر جب نظر پڑی، تو نادر مضامین کا گلدستہ نظر آیا، جس میں ادب کی روح اور فلسفے کا خمیر ہے، اساطیری فنٹاسی ہے اور تازہ واردان ادب کے ادب پر تنقیدی نظر بھی، اردو کے ساتھ ساتھ فارسی کلام کی جو معطر روح اردو میں سمائی ہوئی ہے،وہ مضامین میں بھی شیر وشکر ہوگئی ہے، جو کسی بھی سنجیدہ قاری کو کلاسیکیت کی روح سے روشناس کراتی ہے اور لفظ و معنی کے بے پناہ روموز بکھیرتی ہےـ
کتاب کا پہلا مضمون”صنف غزل اور بین المتونیت” ہے، جسے خسرو کے ایک بیت کے حوالے سے رقم کیا گیا ہے،مضمون کی شروعات مضامین میں اخذ و استفادہ کی بحث سے کی گئی ہے،جس کو انہوں نے بین المتونیت کے دائرے میں پیش کیا ہے،جس کے دلائل کے طور پر سنسکرت اور فارسی شعریات کو بھی پیش کیا ہےـ خسرو کے خصوصی بیت پر جو مضمون قائم ہے وہ بیت کچھ اس طرح ہے:
اے گل چوں آمدی ز زمیں گو چگونہ اند
آں روئے ہا کہ در تہہ گرد فنا شدند
ساتھ میں مصنف کا دعویٰ بھی ہے کہ "غزل صحیح معنی میں بین المتونی صنف سخن ہے،اخذ و استفادہ اس کی شعریات کا مسلمہ اصول ہے”ـ مصنف مذکورہ بیت کے مضمون کو بیدل و سودا سے لےکر مخمور سعیدی کی شاعری تک میں نشاندہی کرتے ہوئے پھر واپس سعدی و خیام کی جانب لوٹ جاتے ہیں، اس طرح وہ اپنے دعوے کےدلائل پیش کرتے چلے جاتے ہیں،جو قاری کے ذہن میں بھی گھر کرجاتےہیں ـ
دوسرے مضمون کا عنوان” غالب کی ایک بیت "ہے،فارسی کا ایک مشہور مقولہ ہے”در بلا بودن بہ از بیم بلا” اس پر بے تکلف کا اضافہ کر کے عرفی کے ایک شعر سے اکتساب کرتے ہیں، غالب کی بیت کچھ اس طرح ہے:
بے تکلف در بلا بودن بہ از بیم بلا
قعر دریا سلسبیل و روئے دریا آتش است
اور عرفی کی بیت کچھ اس طرح ہے:
ہم سمندر باش و ہم ماہی کہ در جیحون عشق
روئے دریا سلسبیل و قعر دریا آتش است
مذکورہ اشعار سے مصنف معانی کے گرہ کھولتے چلےجاتے ہیں، معانی کے دعویٰ کی دلیل اشعار سے پیش کرتے جاتے ہیں اور ایک دلچسپ مضمون بنتا چلا جاتا ہےـ
مرزا منوہر توسنی،جو مصنف کی تحقیق میں فارسی کا سب سے پہلا غیر مسلم شاعر تھا، اس پرایک طویل تحقیقی مضمون ہے،جس میں توسنی کی شخصیت،ادب اور مقبولیت کا جامع انداز میں مدلل احاطہ کیا گیا ہےـ
"کلام خسرو میں گریہ” غزل کے مضامین اور مضامین کے اختراع سے مضمون شروع ہوتا ہے،جس میں گریہ کے مضمون کو جن نئے نئے اندازوں سے خسرو نے پیش کیا ہے، ان کی کہکشاں انہوں نے یہاں پیش کردی ہےـ
"ملک الشعرا فیضی : ایک تجزیاتی مطالعہ” کتاب میں شامل سب سے طویل تحقیقی مقالہ ہے، جو تقریباً پچھتر صفحات پر مشتمل ہے، اگر چہ مصنف نے عنوان میں تجزیاتی مطالعہ لکھا ہے؛ لیکن یہ مکمل تحقیقاتی مقالہ ہے،جس کی شروعات اکبر کے دور میں علماے کبار کے ذکر کے بعد عہدِ اکبری میں فارسی ادب کی حسین تاریخ کا زریں مطالعہ بھی پیش کیا گیا ہےـ فیضی کا درجہ اکبر کے یہاں، فیضی کی تصانیف و تراجم، مذہب اور فیضی کی شاعری کا مطالعہ تفصیلی طور پر شاملِ مضمون ہےـ ایک بات جو اس کتاب میں بہت ہی اہم ہے، وہ یہ کہ مصنف نے اشعار پر جو گفتگو کی ہے،اس میں وہ لفظی تشریح و تعبیر سے دور ہوکر معنیاتی سطح پر کئی پرتوں کو کھولنے کی کوشش کرتے ہیں ـ
کتاب کے ابتدائی مضامین سے ہی اس بات کی امید تھی کہ ادبی معرکے کا ذکر ضرور ہوگا اور وہ "فیضی کا ایک مقولہ” میں دیکھنے کو مل گیا، مضمون تو فیضی کے ایک مقولہ”سخن فہمی عالم بالا معلوم شد” پر مرکوز ہے،عالم بالا کی لغوی معنوی اور ادبی تشریح کے بعد موقعِ ورودِ مقولہ پر پہنچتے ہیں، پھر یہ مصرع ہے یا مقولہ، اس پر جو ادبی معرکہ شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ کے مابین پیش آیا،اس کا ذکر کرتے ہیں ـ
قارون کا قصہ جس کا تعلق محض مذہبی کتب سے ہے اس کے کئی پہلوؤں کی وضاحت مصنف نے ایک مضمون میں کی ہے، مصنف تو بظاہر مفسر نہیں ہیں؛ لیکن قرآن کے ساتھ دیگر مذاہب کی کتابوں میں قارون کا ذکر جس نوعیت کے ساتھ آیا ہے، اس پر اپنی عمیق نگاہ ڈالتے ہوئے کئی اہم پہلوؤں کی جو وضاحت کی ہے،اس سے مصنف کی علمی بصیرت کااندازہ ہوتا ہےـ
"شیخ احمد جام کی ایک بیت” کتاب میں شامل صرف بیت پر ہی مرکوز دوسرا مضمون ہے، شاعری کہتے کسے ہیں اس کیفیت کے ادراک کی تفصیل سے مضمون شروع ہوتا ہے،پھر مشائخ چشت کے سماع سے متعلق ذوق و شعور کو پیش کیا گیا ہے،پھر کئی صفحات کے بعد شیخ احمد جام کی وہ بیت آتی ہے،جس کو سن کر شیخ قطب الدین چار رات تک عالم تحیر میں رہتے ہیں اور پانچویں شب جان جان آفریں کے سپرد کردیتے ہیں،وہ بیت یہ ہے:
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جان دیگر است
اس پورے مضمون میں اگرچہ تصوف کی فضا قائم ہے؛لیکن اصل میں انہوں نے شاعری کی روح کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جو چیزے دیگر ہےـ
اس کے بعد "تخلیق شعر کا الہامی تصور:شعر حافظ کے خصوصی حوالے سے” ہے، ماقبل کے مضمون سے یہ مضمون تدریجا آگے بڑھا ہے اور بات شعر کے الہامی ہونے تک پہنچ گئی ہے، ایک طویل گفتگو طوطی پر ہے، جس میں ہی مضمون نگار نے صفت الہام کو عمدہ طریقے سے پیش کیا ہےـ
"رومی کی ایک بیت” کتاب میں کلاسیکیت پر شامل آخری مضمون اور بیتِ واحد پر مرکوز رہ کر لکھا جانے والا بھی آخری مضمون ہے "آفتاب آمد دلیل آفتاب” یہ اگرچہ رومی کی ایک بیت ہے؛لیکن مقولہ کے طور پر مشہور ہوگیا ہے اور ساتھ ہی فن منطق میں بدیہی کی مثال بھی ہےـ مصنف نگار نے اسی بیت سے بات شروع کی ہے اور اسی پر مرکوز رہ کر کئی قیمتی ضمنی باتیں بھی بتائی ہیں اوردعویٰ کیا گیا ہے کہ اس مصرع میں اور اس کے سوا تقریباً تیس اشعار میں آفتاب سے مراد رومی کے پیر و مرشد شمس تبریز ہیں؛ لیکن گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ دیگر کتب سماوی و شعرا کے یہاں "آفتاب” کا لفظ باری تعالیٰ کے لیے بھی استعمال ہوا ہےـ اس مضمون کے بعد چار مختصر مضامین ہیں، جن میں سے ایک امام غزالی کی حیات اور تین جدید شعرا سعید الظفر وسیم، اقبال خلش اور کرامت علی کرامت کی شعری و فکری جہات پر ہےـ اس کتاب کے مطالعے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی زندگی کا مکمل مطالعہ اس کتاب میں پیش کرنے کی کوشش کی ہےاوریہ کتاب اپنی غیرمعمولی افادیت کی وجہ سے ہرصاحبِ ذوق کودعوتِ مطالعہ دیتی ہےـ
فکرو نظر
previous post