Home بین الاقوامی خبریں فرانس نے بحیرہ روم کی جانب ایران کی توسیع کو مسترد کر دیا

فرانس نے بحیرہ روم کی جانب ایران کی توسیع کو مسترد کر دیا

by قندیل

فرانس نے بحیرہ روم کی جانب ایران کی توسیع کو مسترد کر دیا
پیر س 13دسمبر(قندیل نیوز)
فرانس کے وزیر خارجہ جان ایف لودریاں نے ایران کی علاقائی حرص و طمع پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ملک بحیرہ روم تک تہران کی عسکری توسیع کو قبول نہیں کرے گا۔ انہوں نے روس پر الزام عائد کیا کہ وہ اقوام متحدہ کے زیر قیادت شامی امن بات چیت کو آگے بڑھانے اور تشدد پر روک لگانے کے لیے اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرنے میں ناکام رہا ہے۔
منگل کے روز سیٹلائٹ چینل "فرانس 2” پر بشار الاسد کے بارے میں ایک دستاویزی فلم کے ضمن میں خصوصی بات چیت کرتے ہوئے لودریاں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ ماسکو اور تہران سلامتی کونسل کے ساتھ تعاون کریں تا کہ شام میں چھ برس سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو سکے۔
لودریاں نے گزشتہ ماہ ریاض کے دورے میں بھی تہران کی جانب سے "غلبے کے واسطے اپنائے جانے والے فریب” کی پْرزور مذمّت کی تھی۔منگل کے روز نشر ہونے والے انٹرویو میں شام کے حوالے سے لودریاں نے کہا کہ "ایران اپنے زیر انتظام مسلح گروپوں کو کھینچ کر لا رہا ہے اور حزب اللہ کو سپورٹ کر رہا ہے۔ شام کو ایک مرتبہ پھر سے سیادت کی حامل ریاست بننا چاہیے۔ اس سے مراد ایک ایسی ریاست جو کسی بھی قسم کے دباؤ یا اس کی سرزمین پر کسی دوسرے ملک کی موجودگی سے آزاد ہو”۔لودریاں کا مزید کہنا تھا کہ اگر روس بشار الاسد کو سْوشی بلا سکتا ہے تو وہ اسے بم باری روکنے اور تمام لوگوں تک امداد پہنچنے کی اجازدت دینے کی ضرورت سے بھی آگاہ کر سکتا ہے”۔ لودریاں کا اشارہ گزشتہ ہفتے سْوشی میں بشار الاسد کی روسی ہم منصب ولادیمر پوتین کے ساتھ ملاقات کی جانب تھا۔
فرانسیسی وزیر خارجہ کے مطابق شام کے حوالے سے دو مرکزی کھلاڑی روس اور ایران ہیں۔ ان پر لازم ہے کہ سلامتی کونسل میں دیگر ارکان کے ساتھ ایک سیاسی حل کے واسطے قائدانہ کردار میں اپنا رسوخ استعمال کریں۔لودریاں نے مزید کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ بشار الاسد حل نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس کارروائی کا آغاز کریں جس کے نتیجے میں نیا آئین اور اقوامتحدہ کے زیر نگرانی انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سوچنا بھی دشوار ہے کہ شدید مشکلات سے دوچار ہونے والے لوگ بشار کو کسی حل کا حصّہ سمجھیں گے۔

You may also like

Leave a Comment