اردو میں اصناف کا واضح تصور قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے: پروفیسر عتیق اللہ

مثنوی اور داستان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں : پروفیسرابن کنول
شعبہئ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، یو جی سی، ڈی آرا یس فیزIII کے زیر اہتمام سہ روزہ قومی سمینار ”مثنوی: فن اور روایت“ اختتام پذیر
Thik اردو مثنویوں میں جس قدر تنوع، فلسفیانہ مضامین اور تہذیبی مرقع کشی کے نمونے ملتے ہیں، فارسی مثنویاں اس حوالے سے اردو مثنویوں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں، بلکہ ہمارے یہاں شہر نامہ کا جو تصور ہے اور جس طرح موضوعاتی تجربات ہوئے ہیں مثلاً شکار نامہ، حقہ نامہ، تمباکونامہ، اژدر نامہ وغیرہ اس کی مثال فارسی میں نہیں ملتی۔ فارسی سے ماخوذ اصناف میں اردو نے مزید وسعت اور تنوع پیدا کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار یوجی سی، ڈی آ رایس فیزIII، شعبہئ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام سہ روزہ قومی سمینار ”مثنوی: فن اور روایت“ کے پانچویں اجلاس میں صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسر عبدالحق نے کیا۔ چھٹے اجلاس میں اپنے صدارتی خطبے میں پروفیسر عتیق اللہ نے کہا کہ اردو میں اصناف کا واضح تصور قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مغرب میں اصنافی تنقید کا رجحان بہت توانا ہے۔ ہمارے یہاں صنف اور ہیئت کے درمیان خلط مبحث ایک پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔ ساتویں اجلاس کے صدر پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ دیگر اصناف کے مقابلے میں مثنویوں میں تہذیبی اقدار کی نمائندگی زیادہ ملتی ہے۔ کلاسیکی ادب کا مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر نئے ادب کی تفہیم غیر ممکن ہے۔ اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر وہاج الدین علوی نے کہا کہ کلاسیکی سرمائے سے وابستگی کے بغیر ہم اپنی زبان، تہذیب، تاریخ، ماضی کے اقدار اور سماجیاتی مطالعہ سے کوئی بامعنی رشتہ قائم نہیں کرسکتے۔ پروفیسر شہپر رسول نے صدارتی خطبے میں کہا کہ آج کل سمینار اپنی علمی، تحقیقی، تنقیدی اور فکری روح سے محروم ہوگئے ہیں، کیوں کہ ان میں کوئی نیا زاویہئ نظر سامنے نہیں آتا ہے۔ لیکن شعبہئ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سمیناروں میں یہ مسئلہ نہیں ہے۔ یہاں اس بات کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے کہ ملک بھر کے ماہرین کو مقالے کی دعوت دی جائے۔ متعلقہ موضوع پر نئے گوشے اجاگر کیے جائیں اور اس پر بحث و مباحثے کی آزادی دی جائے۔ اس لحاظ سے یہ ایک زندہ و توانا سمینار رہا۔ پروفیسر سراج اجملی نے صدارتی کلمات میں کہا کہ کلاسیکی اصناف کے مطالعہ میں اس کی بنیادی شعریات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ ہر صنف کا اپنا رنگ و آہنگ اور اپنی جمالیات ہے۔ سمینار کے اختتامی کلمات میں صدر شعبہ پروفیسر شہزاد انجم نے روداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یو جی سی، ڈی آر ایس فیزIIIکے تحت اب تک چار اصناف پر سہ روزہ قومی سمیناروں کا انعقاد کیا جاچکا ہے، جن میں قصیدہ، مرثیہ، داستان اور مثنوی شامل ہے۔ دیگر سمیناروں کی طرح اس سمینار میں بھی ملک بھر کے معروف ماہرین اور دانشوروں نے مثنوی کے مختلف نئے گوشوں کو اجاگر کیا ہے۔ جلد ہی اس سمینار کے مقالات کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا اہتمام کیا جائے گا۔
آج سمینار کے پانچویں اجلاس پروفیسر م ن سعید نے ’قطب مشتری: کچھ نئے زاویے، پروفیسر نسیم احمد نے ’سودا کے کلام میں الحاقی مثنوی‘، پروفیسر حسن عباس نے ’نظامی گنجوی اور اس کی مثنوی نگاری‘ اور ڈاکٹر مظہر احمد نے اردو میں ’ہجویہ مثنوی‘ کے عنوان سے مقالات پیش کیے۔ چھٹے اجلاس میں پروفیسر ابن کنول نے ’اردو مثنویوں میں داستانی عناصر‘، پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے میر کی مثنوی دریائے عشق‘ اور ڈاکٹر سراج اجملی نے ’شمالی ہند کی ایک مثنوی رموز العارفین‘ کے عنوانات سے مقالے پیش کیے۔ ساتویں اجلاس میں پروفیسر کوثر مظہری نے ’محمد افضل کی بکٹ کہانی: لسانی وتہذیبی نشانات‘، ڈاکٹر سرور ساجد نے ’میر اثر کی مثنوی خواب و خیال‘ اور ڈاکٹر امتیاز احمد نے ’زہر عشق کی مقبولیت کے اسباب‘ پر اپنے مقالات پیش کیے۔ سمینار کے مختلف اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر سید تنویر حسین اور ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی نے انجام دیے۔
مختلف مقالات پر جن حاضرین نے بحث و مباحثے میں سرگرم حصہ لیا ان میں پروفیسر وہاج الدین علوی، پروفیسر معین الدین جینا بڑے، پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر رئیس انور، ڈاکٹر خالد جاوید، ڈاکٹر نجمہ رحمانی، ڈاکٹر سرور الہدیٰ، ڈاکٹر احمد کفیل، ڈاکٹر سہیل انور، ڈاکٹر احمد خان، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹرمحمد مقیم، فیضان الحق اور سبحانی کے نام قابل ذکر ہیں۔
سمینار میں پروفیسر شہناز انجم، پروفیسر احمد حسن دانش، انجم عثمانی، ڈاکٹر منور حسن کمال، ڈاکٹر محمد نعیم فلاحی، ڈاکٹر محمد ذاکر حسین، ڈاکٹر عمیر منظر، ڈاکٹر علاء الدین، ڈاکٹر عمران عظیم، ڈاکٹر محمد صلاح الدین، پروفیسر عبدالرشید، ڈاکٹر ندیم احمد، ڈاکٹر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر عادل حیات، ڈاکٹر ابوالکلام عارف، ڈاکٹر سلطانہ واحدی، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر شاہ نواز فیاض، ڈاکٹر سمیع احمد، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر مغیث احمد، ڈاکٹر سلمان فیصل، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر امتیاز احمد علیمی، ڈاکٹر خالد حسن، ڈاکٹر سعود عالم، منظر امام،سلمان عبدالصمد، غزالہ فاطمہ اور اسما کے علاوہ بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات اور ریسرچ اسکالر شریک تھے۔
تصویر میں دائیں سے:
پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر م ن سعید، پروفیسر وہاج الدین علوی، ڈاکٹر خالد مبشر، پروفیسر عبدالحق، پروفیسر شہپررسول، ڈاکٹر مظہر احمد، پروفیسر رئیس انور، پروفیسر احمد حسن دانش، پروفیسر نسیم احمد اور پروفیسر حسن عباس