غزل
سعد مذکر
کس قدر دشوار جینا ہو گیا
اور آساں زہر پینا ہو گیا
میکدے میں ذکر شیخ و برہمن
کب سے ان کا جام و مینا ہو گیا
مدتوں سے زخم کھاتے آئے ہیں
چهلنی چهلنی اپنا سینہ ہو گیا
دشمنوں کا حال اب میں کیا کہوں
دوستوں کے دل میں کینہ ہو گیا
کل تلک جو پارسا بنتے تھے اب
داغدار ان کا بھی سینہ ہو گیا
وصل کی تاثیر تھی کچھ اس طرح
وہ بھی "سر” تا "پا” پسینہ ہوگیا
فکر فردا اور غم امروز کیوں
سعؔد اب مسکن مدینہ ہوگیا