سلیم شوق پورنوی
جسم کے دشت میں بس ایک ہی گھر ہے سائیں
کس کا وہ گھر ہے کچھ اس کی بھی خبر ہے سائیں ؟
شہر سے کر گئے کیوں سارے پرندے ہجرت ؟
آج ویران سا ہر ایک شجر ہے سائیں
دل کی ہر بات یاں آنکھوں سے بیاں ہوتی ہے
شعبدہ باد نہیں عشق نگرہے سائیں
پنچھیاں لوٹ کے آئیں گی تو ٹھہریں گی کہاں؟
شہر کا شہر ہی جب شہربدر ہے سائیں
وحشتِ ہجرہےیااورکسی بات کا غم ؟
آج پہلو میں پریشان جگر ہے سائیں
کون مجرم ہے کسے ڈھوندتی پھرتی ہے نظر ؟
تیری چاہت کا گنہ گار اِدھر ہے سائیں
راحتِ وصل کو لاحق ہے سدا ہجر کا ڈر
جیسے کہ شام کو لاحق یہ سحر ہے سائیں
شوق کی آنکھوں میں اک شخص جو رہتا تھا کبھی
آج کل کس کاوہ محبوبِ نظر ہے سائیں؟
غزل
previous post