نصیر احمد ناصر
پسِ تصویر ہی دکھا مجھ کو
کارنس پر مگر سجا مجھ کو
سرمئی بارشوں کو کھڑکی سے
اچھا لگتا ہے دیکھنا مجھ کو
نیلگوں آسماں کے کینوس پر
بادلوں کی طرح بنا مجھ کو
کیوں بنایا تھا مجھ کو مٹی سے
چاکِ ہستی پہ اب گھما مجھ کو
کوئی دیوار ہو نہ دروازہ
گھر ملے اس قدر کھلا مجھ کو
سارا جنگل تھا گھات میں لیکن
اک درندے نے کھا لیا مجھ کو
پہلے کہتا تھا یاد رکھنا سدا
اب وہ کہتا ہے بھول جا مجھ کو
خود نمائی کی اس کو عادت ہے
منہ دکھاتا ہے آئنہ مجھ کو
پھوٹ نکلا ہوں خواب کے اندر
اپنی آنکھوں سے اب بہا مجھ کو
غزل
previous post