Home غزل غزل

غزل

by قندیل


عرفان ستار
درونِ دل ترا ماتم ہے، کُو بَہ کُو نہیں ہے
ہمارے مسلکِ غم میں یہ ہاو ہُو نہیں ہے
یہ کس کو اپنے سے باہر تلاش کرتے ہیں؟
یہ کون ہیں کہ جنھیں اپنی جُست جُو نہیں ہے؟
میں جیت بھی جو گیا تو شکست ہوگی مجھے
مِرا تو اپنے سوا کوئی بھی عدو نہیں ہے
نہیں ہے اب کوئی زندان تک براے قیام
رسَن بھی اب پے آرائشِ گُلو نہیں ہے
تمام عمر کی اِیذا دہی کے بعد کھُلا
میں جس کی یاد میں روتا رہا، وہ تُو نہیں ہے
تُو چیز کیا ہے ؟جو کی جائے تری قدر میاں !
کہ اب تو شہر میں غالب کی آبرو نہیں ہے
نہیں چمن کے کسی گُل میں تجھ بدن سی مہک
شراب خانہ میں تجھ لب سا اک سُبو نہیں ہے
تُو خود پسند، تعلّی پسند تیرا مزاج
میں خود شناس، مجھے عادتِ غُلو نہیں ہے!
ہے سرخ رنگ کی اک شے بغیرجوش و خروش
تری رگوں میں جو بہتا ہے، وہ لہُو نہیں ہے
ہر ایک اچھا سخُن ور ہے داد کا حق دار
کہ بد دیانتی اہلِ سخُن کی خُو نہیں ہے
کہاں سے ڈھونڈ کے لاتا ہے اپنے حق میں دلیل
جنابِ دل سا کوئی اور حیلہ جوُ نہیں ہے
نگارؔ و جَونؔ و رسا سے ملی ہے دادِ سخن
مجھے اب اِس سے زیادہ کی آرزو نہیں ہے
منافقت کا لبادہ اتار دے عـــرفانؔ !
اب آئنے کے سِوا کوئی روبَہ رو نہیں ہے

You may also like

Leave a Comment