افضل خان افضل
ہم نے اُس ذات سے لَو جب سے لگائی ہوئی ہے
اس کی تصویر ہر اک شے میں سمائی ہوئی ہے
اب اِسے تیرے سِوا کون بجھا سکتا ہے
تو نے یہ آگ جو سینے میں لگائی ہوئی ہے
کچھ تو تاریکی مقدر میں ملی ہے اسکو
کچھ گھٹا زلف سے اِس شب نے چرائی ہوئی ہے
گر گئی تھی جو کسی روز مری نظروں سے
دل نے اب تک وہی تصویر اٹھائی ہوئی ہے
تیرے جلووں کی خطا ہے نہ اداؤں کا قصور
دل میں حسرت یہ ہماری ہی جگائی ہوئی ہے
یہ جو گلشن میں صبا پھرتی ہے اترائی ہوئی
اس کی خوشبو میں بس اک بار نہائی ہوئی ہے
روح تو قید ہے اور جسم کو آزادی ہے
کیا قیامت کی ہماری یہ رہائی ہوئی ہے
اس میں اب کتنے ہیں پوشیدہ معانی افضل
دھند سی جو ترے اشعار پہ چھائی ہوئی ہے
*
ریسرچ اسکالر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
3 comments
کچھ گھٹا زلف سے اس شب نے چرائی ہوئی ہے
بہت عمدہ مصرع ہے
تیرے جلووں کی خطا۔۔
بہت ہی عمدہ مصرع ہے
تیرے جلووں کی خطا ہے نہ اداؤں کا قصور
دل میں حسرت یہ ہماری ہی جگائی ہوئی ہے. بہت عمدہ