غزل
سعد مذکر دہلوی
میرے یار خواب کا جب در کھلا، منظر کھلا
ایک ماہ تاب کا "سرکا” دوپٹہ سر کهلا
ماہ عالم تاب، سے جب مس ہوئی باد صبا
بھینی بھینی خوشبوئیں پھیلیں، کہ ہو عنبر کھلا
یوں تو حال نفس سے واقف نہیں کوئی مگر
ہر کس و ناکس ہے مفتی، پر ہے دل کافر کھلا
جب سیاست دان کے کچھ راز تھے افشا ہوئے
سب نے برجستہ کہا یہ کیوں کھلا، کیوں کر کهلا
اے مرے مولیٰ دلیری، کس قدر اب بڑھ گئی
لے کے چلتے ہیں سبھی چاقو کھلا خنجر کهلا
بے دھڑک فریاد لے کر کاش کے جاتے سبھی
حاکم وقت زمانہ کا نہیں ہے در کهلا
یہ جہاں مثل قفس ہے ہم مسلماں کے لیے
پھر بھی رہتے ہیں یہاں مانند بلبل پر کهلا
ہم فقیر و بے نوا کا بس یہی سرمایہ ہے
ایک بستر، قدرے توشہ اور ہے چھپر کهلا
مانگ لے رحمت خدا سے سعد تو توبہ بھی کر
ہے نہیں معلوم کہ یہ کب تلک ہے در کهلا.
رابطہ 919058333993+