سعودعثمانی
گزرتی عمر ہے اور انتظار خواب کا ہے
عجیب فاصلہ آنکھوں کے پار خواب کا ہے
غروب ہوتے ہوئے چاند کو مبارک ہو
کوئی تو ہے کہ جسے اختیار خواب کا ہے
کبھی کبھی ترا چہرہ چھپا نہیں پاتا
وہ بھید بھی جو کسی رازدار خواب کا ہے
۔طلائی خاک ، دمکتا فلک ، سنہرے شجر
عجیب رنگ ترے زرنگار خواب کا ہے
خود اپنے آپ میں یوں منعکس ہیں آئینے
کہ جیسے خواب پہ دار و مدار خواب کا ہے