انجیل صحیفہ
میں کوئی دھن لے کے آؤں، تُو اسے الفاظ دے
انگلیاں تھرکا لبوں پر ،گیت گا اور ساز دے
اتفاقاً میں بچھڑ جاؤں کسی شب خواب میں
ہڑبڑا کر آنکھ کھولے، تُو مجھے آواز دے
رنگ میرا گندمی سا، بال گھنگرالے سے ہوں
پھول لہجہ ، دیپ آنکھیں ،مشرقی انداز دے
ہائی فائی ہوٹلوں میں کیوں کوئی لیوش ڈنر؟
گاؤں لے کر چل مجھے اور دعوتِ شیراز دے
رات میں چھت پر کھڑی یہ چاند سے کہنے لگی
آ مجھے دل سے لگا، تنہائیوں کے راز دے
نیلےسیّارے پہ آ ،کافی پئیں ،باتیں کریں
روبرو اک شام, ملنے کا مجھے اعزاز دے
آسماں،مریخ، تارے، کہکشاں،بادل، ہوا
سارے مجھ سے کہہ رہے ہیں روح کو پرواز دے
ہے عجب خواہش کہ میں انجام پہلے دیکھ لوں
تُو کہانی ختم کر اور پھر اِسے آغاز دے
شاہد
26 جون, 2019 at 05:18اردو ادب کو ہماری نئی نسل نے پتہ نہیں ایک الگ ہی رخ دینا شروع کر دیا ہے.
لہذا اب ادب کے رخ کو ذرا تبدیل کرنے کی ضرورت ہے..
احمد علی برقی اعظمی
19 ستمبر, 2019 at 10:25وہ غزل پہلے کبھی تھی جو حدیث دلبری
کرتی ہے اب وہ احاطہ عصری موضوعات کا
احمد علی برقی اعظمی