بسمل سیماب
چار دن کی یہ زندگانی ہے
میں بھی فانی ہوں تو بھی فانی ہے
اس کی ایما ہے تو لٹادیں گے
جان ویسے بھی آنی جانی ہے
حسنِ محبور کی ندامت پر
شرم سے عشق پانی پانی ہے
بِن مرے تو بھی تو نہیں بچتا
میں ہوں کردار تو کہانی ہے
ہم فقیروں کو اس سے کیا مطلب
کون راجا ہے کون رانی ہے
منجمد ہجر میں ہے ساعتِ وصل
تجھ سے دوری بھی شادمانی ہے
مصحفِ عشق کی ہر ایک آیت
یاد بسملؔ کو منہ زبانی ہے