بسمل سیمابؔ
یا وہ گوہر کی طرح سیپ میں پالے مجھ کو
ورنہ موجوں کی اذیت سے نکالے مجھ کو
ہوں میں اس قدر گنہگار کہ پانی نہ ملے
شکر اللہ کا دیتا ہے نوالے مجھ کو
مجھ کو منظور ہے سو بار بنا کر توڑے
شرط یہ ہے کہ محبت سے تو ڈھالے مجھ کو
جنسِ نایاب ہوں پھر تُو بھی ترس جائے گا
وقت رہتے ہوئے، بہتر ہے، کمالے مجھ کو
مانگا کرتے تھے ادھار آکے جو مجھ سے کرنیں
کر گئے آج وہ ظلمت کے حوالے مجھ کو
میں اگر ڈوب بھی جاؤں تو ملے گا ساحل
ہے ترا فرض مگر آکے بچالے مجھ کو
میری خوراک اندھیرا ہے کئی صدیوں سے
دفعۃً دھوپ کہیں مار نہ ڈالے مجھ کو
میں ہوں سیمابؔ مرا کام ہے رقصِ پیہم
ہوسکے تجھ سے تو ہم رقص بنالے مجھ کو