حمادؔ خان
کوئی خوشبو کوئی مرہم نہ دوا لے جائے
اس سے کہنا کہ بس اک ماں کی دعا لے جائے
دہر میں پیار و محبت کی صدا لے جائے
جس جگہ جائے یہی ایک ندا لے جائے
ناخدا نے ہمیں چھوڑا ہے بھنور میں لاکر
جس طرف چاہے ہمیں اب تو خدا لے جائے
زندگی کیا ہے، کسی پیڑ پہ سوکھا پَتّا
اک ذرا تیز ہوا آئے اڑا لے جائے
اور کیا ہوگا ثبوت انکی سیہ بختی کا
ظلمتِ شب جنہیں ہر رات منا لے جائے
کیسے اصلاح چمن کی رکھوں امید ان سے
جن کو جس سمت جو چاہے وہ بہا لے جائے
قافلے میں نہیں منزل پہ پہنچنے کا شعور
دیکھئے اِس کو کدھر راہنما لے جائے
ان سے کب ہوسکی گلشن کی حفاظت، بھنورا
جن کے رہتے ہوئے پھولوں کو چرا لے جائے
وہ بھلا نعرۂ حق کیسے لگائیں گے جو لوگ
دوڑے جاتے ہیں کہ جس سمت ہوا لے جائے
اس سے کہنا کہ نئے عہد کی سرخی کے لئے
ہم سبھی سینہ فگاروں کی نوا لے جائے
شوقِ نظارہ ہے آنکھوں کی بصارت کے لئے
اور مرا درد جسے تیری ادا لے جائے
کاش حمادؔ کے کہنے پہ کسی روز صبا
سوئے طیبہ مری دھڑکن کی صدا لے جائے