عقیل عباس
اس کو دعویٰ تھا سخن ناپ لیا
ہم نےاس کا بھی دہن ناپ لیا
ایک بے ساختہ بوسے کی طرح
ایک جھونکے نے بدن ناپ لیا
پاؤں زنجیر سے آزاد ہوا
اور خواہش نے گگن ناپ لیا
اس نے اچکائے ذرا سے کندھے
میں نے دو طرفہ جتن ناپ لیا
میری آنکھوں نے ذرا پیچھا کِیا
اس نے اتنے میں چلن ناپ لیا
خواب میں جسم میسر تھا کوئی
جسم یعنی وہ سمن ناپ لیا