رفیق سندیلوی
زمیں کی آگ سے اور آسماں کی بجلی سے
فروزاں رہتا ہُوں مَیں جسم و جاں کی بجلی سے
کہاں کی لَو تھی کہ موج اور ذرّے کو جس نے
بہ یک نگاہ مِلایا کہاں کی بجلی سے
عجیب دھوپ ہے جس سے وجود کا ہر تار
جُڑا ہُوا ہے زمان و مکاں کی بجلی سے
مزاج جانتا ہُوں برق پاش مٹّی کا
مَیں سو طرح سے جَلا ہُوں یہاں کی بجلی سے
ہر ایک لہر میں لہریں جھلک دکھاتی ہیں
گُزر رہا ہُوں کس آبِ رواں کی بجلی سے
غزل
previous post