Home غزل غزل

غزل

by قندیل

رفیق سندیلوی
زمیں کی آگ سے اور آسماں کی بجلی سے
فروزاں رہتا ہُوں مَیں جسم و جاں کی بجلی سے
کہاں کی لَو تھی کہ موج اور ذرّے کو جس نے
بہ یک نگاہ مِلایا کہاں کی بجلی سے
عجیب دھوپ ہے جس سے وجود کا ہر تار
جُڑا ہُوا ہے زمان و مکاں کی بجلی سے
مزاج جانتا ہُوں برق پاش مٹّی کا
مَیں سو طرح سے جَلا ہُوں یہاں کی بجلی سے
ہر ایک لہر میں لہریں جھلک دکھاتی ہیں
گُزر رہا ہُوں کس آبِ رواں کی بجلی سے

You may also like

Leave a Comment