حسیب الرحمٰن شائق
اب تیرگئ شب سے شکایت نہیں ہوتی
تنہائئ پیہم سے بھی وحشت نہیں ہوتی
وہ آہِ سحرگاہی کہاں ,نالۂ وشیون؟
اب گھر میں مسلماں کےتلاوت نہیں ہوتی
وہ شعرکہ جووقت کےہونٹوں پہ رواں ہو
ہیرےسےتوکم اس کی بھی قیمت نہیں ہوتی
ہرشعرمیں ہوتا تو ہے خونِ دلِ شاعر
ہرشعرکی تقدیر میں شہرت نہیں ہوتی
اشعار کے انبارہیں ,ہرشخص ہےشاعر
افکار میں لیکن کوئی ندرت نہیں ہوتی
ہرشخص کو غمخوار سمجھ بیٹھوں جہاں میں
اب مجھ سے تو سرزد یہ حماقت نہیں ہوتی
میخانے کا دستور وہی اب بھی لیکن
میخوار پہ ساقی کی عنایت نہیں ہوتی