Home غزل غزل

غزل

by قندیل

7حمادؔ خان

ہم سفر کوئی نہیں ہے راہبر کوئی نہیں
ہم دیار غیر میں ہیں اپنا گھر کوئی نہیں

تو ابھی نادان ہے تجھ کو خبر کوئی نہیں
صوفی و واعظ ہی کیا، اب معتبر کوئی نہیں

اہلیان کعبہ و بت خانہ میخانے چلیں
نام ہی کافی نہیں ہے جب ادھر کوئی نہیں

اے خدا نائب ہے تیرا دہر میں انسان یہ
لیکن اس کی حرکتوں سے بے خبر کوئی نہیں

کس طرح کرنا ہے رسوا کس کو کرنا ذلیل
یہ اک ایسا ہے فن جس میں بے ہنر کوئی نہیں

سوز دل اب سرد ہے یعنی تمہارے نام کا
دل نے وردِ خاص رکھاّ پر اثر کوئی نہیں

ایک ویرانی ہے چاروں اور میرے آس پاس
رنگِ ہستی کیا ہے جب گشت و گزر کوئی نہیں

کتنی چالیں چل رہا ہے یہ زمانہ روز وشب
کون سمجھے گا اسے جب دیدہ ور کوئی نہیں

شاخ گل پر ایک تتلی نے بسیرا کیا کیا
گل پکار اٹھے کہ ایسا پیشہ ور کوئی نہیں

جن درختوں پر نہیں خوشے پھلوں کے ان کو بھی
بہر سایہ چھوڑ دو ان سے خطر کوئی نہیں

یہ تو اپنا کام ہے پیار و محبت عام ہو
کیا غرض ہم کو اگر نفع وضرر کوئی نہیں

ہم جہانِ شوق میں ہیں منتظر اس ذات کے
جس کی آمد پر لگے ایسا بشر کوئی نہیں

محو حیرت ہوں کہ کل تک دوست اور دشمن سبھی
سدِراہ عاشقی تھے اب مگر کوئی نہیں

ایسی منزل پر مجھے لے آیا عاشق دل مرا
خود مجھے بھی اب یہاں اپنی خبر کوئی نہیں

جھوٹ تھا یہ سب کہ بچھڑے تو نہیں رہ پائیں گے
تو بھی خوش ہے میں بھی خوش ہوں دربدر کوئی نہیں

پوچھتا ہےآج پھر حمادؔ آخر کیوں تجھے
اپنے دیوانے کی حالت پر نظر کوئی نہیں

You may also like

3 comments

عظمت النساء 15 فروری, 2018 - 00:06

کس طرح کرنا ہے رسوا کس کو کرنا ذلیل
یہ اک ایسا ہے فن جس میں بے ہنر کوئی نہیں
بہت خوب…

حماد خان 15 فروری, 2018 - 00:23

بہت شکریہ عبد الباری صاحب اور نایاب حسن صاحب

حماد خان 15 فروری, 2018 - 00:23

جزاک اللہ

Leave a Comment