Home غزل غزل

غزل

by قندیل

عرفان ستار
تیری یاد کی خوشبو نے بانہیں پھیلا کر رقص کیا
کل تو اک احساس نے میرے سامنے آ کر رقص کیا
اپنی ویرانی کا سارا رنج بُھلا کر صحرا نے
میری دل جوئی کی خاطر خاک اڑا کر رقص کیا
پہلے میں نے خوابوں میں پھیلائی درد کی تاریکی
پھر اُس میں اک جھلمل روشن یاد سجا کر رقص کیا
دیواروں کے سائے آ کر میرے جلو میں ناچ اٹھے
میں نے اُس پُر ہول گلی میں جب بھی جا کر رقص کیا
اُس کی آنکھوں میں کل شب ایک تلاش مجسم تھی
میں نے بھی کیسے بازو لہرا لہرا کر رقص کیا
اُس کا عالم دیکھنے والا تھا جس دم اک ہُو گونجی
پہلے پہل تو اُس نے کچھ شرما شرما کر رقص کیا
رات گئے جب سناٹا سر گرم ہوا تنہائی میں
دل کی ویرانی نے دل سے باہر آ کر رقص کیا
دن بھر ضبط کا دامن تھامے رکھا خوش اسلوبی سے
رات کو تنہا ہوتے ہی کیا وجد میں آ کر رقص کیا
مجھ کو دیکھ کے ناچ اٹھی اک موج بھنور کے حلقے میں
نرم ہوا نے ساحل پر اک نقش بنا کر رقص کیا
بے خوابی کے سائے میں جب دو آنکھیں بے عکس ہوئیں
خاموشی نے وحشت کی تصویر اٹھا کر رقص کیا
کل عرفانؔ کا ذکر ہوا جب محفل میں تو دیکھو گے
یاروں نے ان مصرعوں کو دہرا دہرا کر رقص کیا

You may also like

Leave a Comment