حسیب الرحمٰن شائق
اب دوست بھی دشمن کا طرفدار لگے ہے
دنیا مرے مرنے کی طلب گار لگے ہے
ہر پیروجواں دیکھئے بیمار لگے ہے
یہ سب توقیامت کے ہی آثار لگے ہے
ہر چھوٹ کوسچ کہنے کا گُر آگیا جس کو
دیکھو اسی کے راج میں دربار لگے ہے
یہ طرزِ تکلم کاجوانداز ہے میرا
ہرلفظ مرا ان کو گہربار لگے ہے
اس دورِتجدد کی کرامات تو دیکھو
انسان ہی انسان سےبیزار لگے ہے
جوظلم و تعدی کےستمگر ہیں جہاں میں
نظروں میں مری یار!وہ خونخوارلگےہے
جاہل ہیں امام اور مفتی بھی وہی ہیں
عالم تو اب اس دور میں بیکار لگے ہے
شائق کا تو انداز نرالا ہے جہاں سے
ہروقت حقیقت کا طلب گارلگےہے